ہفتے میں 2 بار مچھلی کھانا دل کی صحت کے لیے فائدہ مند

13 مارچ 2021
یہ بات کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

اپنے دل کو زندگی میں امراض سے بچانا چاہتے ہیں ؟ تو مچھلی کو اپنی غذا کا حصہ بنالیں۔

یہ بات کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

میکماسٹر یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 60 سے زیادہ ممالک میں ہونے والی متعدد بڑی تحقیقی رپورٹس کا گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ زیادہ چکنائی یا چربی والی مچھلی کھانے سے خطرے سے دوچار گروپ جیسے امراض قلب یا فالج کا سامنا کرنے والے افراد میں دل کی شریانوں سے جڑے امراض کی روک تھام ہوتی ہے۔

اس کی بڑی وجہ مچھلی میں موجود اومیگا 3 فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں جو دل کی شریانوں سے جڑے امراض جیسے ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرتے ہیں۔

تحققیق میں بتایا گیا کہ اومیگا 3 فیٹی ایسڈز سے بھرپور مچھلی ہفتے میں 2 بار کھانا اس خطرے کو کم کرتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے مچھلی کو غذا کا حصہ بنانا تحفظ کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔

تاہم تحقیق میں امراض قلب یا فالج کا سامنا کرنے والے افراد میں مچھلی کے استعمال سے کوئی فائدہ دریافت نہیں ہوسکا۔

ماہرین نے کہا کہ تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ مچھلی کو زیادہ کھانا بالخصوص چربی والی مچھلی کھانا دل کے امراض کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے مفید ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امراض قلب سے محفوظ افراد بھی مچھلی کھانے سے ان جان لیوا امراض سے تحفظ حاصل کرسکتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما انٹرنل میڈیسین میں شائع ہوئے۔

2018 میں ایسٹرن فن لینڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ چربی والی مچھلی کو ہفتہ بھر میں 4 دفعہ کھانا جسم میں صحت کے لیے فائدہ مند کولیسٹرول کی شرح بڑھانے اور امراض قلب کا خطرہ کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق مچھلی ایچ ڈی ایل یا اچھے کولیسٹرول کی سطح بڑھاتی ہے خصوصاً ان افراد میں جن کی گلوکوز میٹابولزم کی صلاحیت متاثر ہوچکی ہوتی ہے۔

اسی طرح مچھلی میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈ نقصان دہ کولیسٹرول ایل ڈی ایل کی سطح کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے، جس سے خون کی شریانوں سے جڑے امراض جیسے امراض قلب، ہارٹ اٹیک یا فالج وغیرہ کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل مولیکیولر نیوٹریشن اینڈ فوڈ ریسرچ میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں