کراچی: وزیر اعلیٰ ہاؤس کے قریب اساتذہ کا احتجاج، 20 افراد گرفتار

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2021
آئی بی اے سکھر کے زیر اہتمام مطلوبہ امتحان پاس کرچکے ہیں لیکن صوبائی حکومت ہماری ملازمتوں کو مستقل نہیں کررہی، مظاہرین - فوٹو:ڈان
آئی بی اے سکھر کے زیر اہتمام مطلوبہ امتحان پاس کرچکے ہیں لیکن صوبائی حکومت ہماری ملازمتوں کو مستقل نہیں کررہی، مظاہرین - فوٹو:ڈان

کراچی: وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب اپنی سروسز کو مستقل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اساتذہ کے احتجاج کے دوران پولیس نے 20 افراد کو گرفتار کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عینی شاہدین اور پولیس نے بتایا کہ 29 اضلاع سے تعلق رکھنے والے تقریبا 957 ہیڈ اساتذہ نے گزشتہ 23 روز سے کراچی پریس کلب کے باہر اور بعد میں 7 روز سے سندھ اسمبلی کی عمارت کے باہر دھرنا دے رکھا تھا۔

اساتذہ کا کہنا تھا کہ وہ آئی بی اے سکھر کے زیر اہتمام مطلوبہ امتحان پاس کرچکے ہیں لیکن صوبائی حکومت ان کی ملازمتوں کو مستقل نہیں کررہی ہے۔

گزشتہ روز اساتذہ نے سندھ اسمبلی سے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف مارچ کیا۔

مزید پڑھیں: سندھ یونیورسٹی کے طالب علم کے پولیس حراست میں مبینہ قتل پر احتجاج

ان میں سے 100 کے قریب اساتذہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے چند گز دور واقع پی آئی ڈی سی ٹریفک سگنل پر پہنچے جہاں انہیں منتشر کرنے کی کوشش میں پولیس نے تشدد کیا۔

مظاہرین نے دعوٰی کیا کہ پولیس نے 9 خواتین اساتذہ سمیت ان کے 20 ساتھیوں کو حراست میں لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے ہمیشہ جمہوری حقوق کی بات کی تھی لیکن پولیس نے ان پر تشدد کیا۔

مظاہرین نے اپنی خدمات کو مستقل کیے جانے تک احتجاج جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

حراست میں لیے جانے والے اساتذہ میں سے ایک فائزہ فاطمہ نے بتایا کہ بعد ازاں پولیس نے حراست میں لی گئی 9 خواتین اساتذہ کو رہا کردیا۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پولیس نے ان کے ساتھیوں پر لاٹھی چارج کیا اور مبینہ طور پر ان میں سے کچھ زخمی بھی ہوئے۔

فائزہ فاطمہ نے بتایا کہ آئی بی اے سکھر کی جانب سے ٹیسٹ کے ذریعے محکمہ تعلیم میں مجموعی 957 ہیڈ ماسٹروں کو بھرتی کیا گیا تھا تاہم حکومت سندھ ان کی خدمات کو مستقل نہیں کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ کیلئے وفاقی حکومت کی 'بے حسی' پر سخت احتجاج کرتا ہوں، وزیراعلیٰ سندھ

انہوں نے کہا کہ ان کا مطالبہ ہے کہ دیگر صوبائی محکموں میں ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کی طرز پر سندھ اسمبلی سے قانون سازی کے ذریعے ان کی خدمات کو بھی مستقل بنایا جائے۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس صرف احتجاج کرنے والے اساتذہ کو 'پیچھے دھکیل' رہی ہے اور ان پر لاٹھی چارج نہیں ہوا۔

انہوں نے تصدیق کی کہ پولیس نے تمام حراست میں رکھی گئی خواتین اساتذہ کو رہا کردیا ہے جبکہ تقریباً 11 اساتذہ اب بھی پولیس کی تحویل میں ہیں۔

ادھر ڈی آئی جی جنوبی جاوید اکبر ریاض نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے احتجاج کرنے والے اساتذہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں