سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی سیٹ پر ان کی حمایت کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) سے ووٹ لینے کا فیصلہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا تھا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'لائیو ود عادل شاہ زیب' میں میزبان عادل شاہ زیب کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ وہ سینیٹ کی چیئرمین شپ اور نہ ہی قائد حزب اختلاف کی نشست میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن یہ فیصلہ بلاول نے کیا تھا۔

مزید پڑھیں: مولانا اور نواز شریف کا پیپلز پارٹی کے پی ڈی ایم چھوڑنے کی صورت میں بھی آگے بڑھنے پر اتفاق

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں اختلافات کی خبریں زیر گردش ہیں کیونکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں یہ دعویٰ کررہی تھیں کہ اپوزیشن لیڈر ان کا حق ہے۔

یوسف رضا گیلانی نے دوران انٹرویو باپ کے سینیٹرز سے ووٹ لینے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناراض اراکین تھے جنہوں نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے عہدے کے لیے بلاول بھٹو زرداری سے رابطہ کیا تھا لیکن حکومتی اراکین کے طور پر ان کی مدد حاصل کرنےمیں برائی کیا ہے، ان کے اتحادیوں نے سنیٹ کی نشست کے لیے ان کی حمایت کی تھی۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے مزید کہا کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو برقرار رہنا چاہیے لیکن اسمبلیوں سے استعفی دینے کا فیصلہ ایک دم سے غیرمتوقع طور پر سامنے آیا، اگر استعفے دے دیے جائیں گے تو اس کے بعد اگلا اقدام کیا ہوگا اور پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی بھی یہی سوال پوچھے گی۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ لانگ مارچ کا فیصلہ استعفوں سے مشروط ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے جاتی امرا میں پی ڈی ایم کی پوری قیادت کو اس بات پر راضی کیا کہ ہمیں سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں لازمی حصہ لینا چاہیے، انہوں نے کہا کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر استعفے دے دیے جاتے ہیں تو اگلا اقدام کیا ہوگا اور پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو بھی ان سے یہی سوال کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: 'مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی کے ہاتھوں ذبح ہوگئی'

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے جواب دیا کہ وہ کبھی بھی کسی کپتان تک سے نہیں ملے لہٰذا آرمی چیف سے ملاقات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ممکنہ ڈیل کے بارے میں سوال پر سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کسی کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں کی ہے، یہ تمام باتیں محض قیاس آرائیاں ہیں، پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچایا اور اور ہم ہر اچھے اور برے وقت میں پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔

پروگرام کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ جلد ہی عوام کو پتا چل جائے گا کہ استعفے نہ دینے کا ہمارا فیصلہ درست تھا، مسلم لیگ (ن) بھی کبھی مستعفی نہیں ہوگی اور مجھے اس بات پر یقین ہے۔

یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کی مدد سے 3 مارچ کو تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست دے کر یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کرایا تھا ۔

البتہ قائد حزب اختلاف کے معاملے پر دونوں جماعتوں میں اختلافات کے بعد مسلم لیگ(ن) نے حکومتی اراکین سے مدد لینے پر پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ پی ڈی ایم کے مقصد کو دھوکا دینے والوں کو 'بھاری قیمت' چکانی ہو گی۔

مزید پڑھیں: 'باپ' سے ووٹ لینے کا معاملہ: پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی،اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری کردیے

مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے اس طرز عمل پر ایک ٹوئٹ میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ گیلانی نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے بجائے 'باپ' کے سینیٹرز کو زیادہ قابل اعتماد سمجھا، 'باپ' مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کی اتحادی ہے۔

گیلانی کا قائد اختلاف کے منصب کے لیے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار اعظم نذیر تارڑ سے براہ راست مقابلہ تھا اور انہوں نے اس سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز کے ووٹ استعمال کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے 30 اپوزیشن سینیٹرز کی حمایت سے یہ نشست حاصل کی ہے، ان میں پیپلز پارٹی کے 21 ارکان، عوامی نیشنل پارٹی کے دو، جماعت اسلامی کے ایک ، سابق فاٹا سے دو آزاد امیدوار (ہدایت اللہ اور ہلال الرحمن) اور دلاور خان کے آزاد گروپ کے چار ارکین شامل تھے جو ماضی میں مسلم لیگ(ن) کی حمایت کرتے تھے، اس گروپ کے دیگر اراکین میں کائرہ بابر، نصیب اللہ بازئی اور احمد خان شامل ہیں۔

پی ڈی ایم کے اندر دراڑیں

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی اراکین اسمبلی سے حمایت حاصل کرنے کے فیصلے کو پیپلز پارٹی کے اندر بھی چند اراکین نے مناسب نہیں سمجھا۔

انہی میں سے ایک سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ 'حکومتی اراکین' کے ووٹ استعمال کرنے کے پیپلز پارٹی کے فیصلے نے حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ پارٹی کے نظریاتی مؤقف کو نقصان پہنچایا۔

مسلم لیگ (ن) کا ماننا ہے کہ پی ڈی ایم کی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف مسلم لیگ (ن) سے ہو گا اور اس کا سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے نتائج سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: (ن) لیگ سمیت اپوزیشن کی 5 جماعتوں کا سینیٹ میں الگ بلاک بنانے کا فیصلہ

اس دوران پیپلز پارٹی نے اعتراف کیا کہ اس سے قبل انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے گیلانی کی نامزدگی کے بدلے میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دینے پر مسلم لیگ (ن) سے اتفاق کیا تھا، البتہ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد صورتحال بدل گئی تھی۔

اس اقدام کے بعد پی ڈی ایم نے سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور کہا تھا کہ سینیٹ میں 27 اراکین پر مشتمل پانچ اپوزیشن جماعتوں کا نیا اتحاد تشکیل دیں گے۔

اس دوران پیپلز پارٹی نے کہا کہ اگر مسلم لیگ(ن) نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں گیلانی کی حمایت نہیں کی تو وہ شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں