شوگر اسکینڈل: کارروائی صرف جہانگیر ترین نہیں سب کےخلاف ہونی چاہیے، غلام سرور خان

09 اپريل 2021
غلام سرور خان نے کہا کہ  کابینہ میں ہماری آواز کم، کاروباری طبقے کی زیادہ سنی جاتی ہے — فوٹو: ڈان نیوز
غلام سرور خان نے کہا کہ کابینہ میں ہماری آواز کم، کاروباری طبقے کی زیادہ سنی جاتی ہے — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر ایوی ایشن غلام سرور خان کا کہنا ہے کہ چینی اسکینڈل کے حوالے سے کارروائی صرف جہانگیر ترین نہیں دیگر شوگر ملز مالکان کے خلاف بھی ہونی چاہیے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'لائیو وِد عادل شاہزیب' میں گفتگو کرتے ہوئے غلام سرور خان نے کہا کہ 'جہانگیر ترین کی پارٹی کے لیے بےپناہ خدمات ہیں اور انہوں نے یہی کہا کہ میں تحریک انصاف سے انصاف کا متقاضی ہوں، انصاف ہماری پارٹی کا نام بھی ہے اور ہمارا منشور بھی ہے اس لیے اسے بلاتفریق ہونا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں نہیں سمجھتا کہ جہانگیر ترین سے سیاسی انتقام لیا جارہا ہے، سندھ میں بیشتر شوگر ملز آصف زرداری اور ان کے گروپ کی ہیں، پنجاب میں اکثر ملز نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کی ہیں، اگر چینی کے معاملے میں کوئی گڑبڑ ہے تو میرے خیال میں ان لوگوں کا جہانگیر ترین سے زیادہ اہم کردار ہوگا، ان لوگوں کے خلاف جب کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا تو لوگ سوچنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جہانگیر ترین سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے، وہ تحریک انصاف میں ہیں اور رہیں گے، اگر ان کے خلاف کچھ غلط ہو رہا ہے تو وہ عدالت گئے ہیں اور وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ انصاف ہو اور ہوتا ہوا نظر بھی آئے'۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف مالیاتی فراڈ اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔

ڈان کو دستیاب ایف آئی آر کی نقول کے مطابق پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 406، 420 اور 109 جبکہ انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت 2 علیحدہ مقدمات درج کیے گئے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق انکوائری کے دوران جہانگیر ترین کی جانب سے سرکاری شیئر ہولڈرز کے پیسے کے غبن کی سوچی سمجھی اور دھوکہ دہی پر مبنی اسکیم سامنے آئی جس میں جہانگیر ترین کی کمپنی جے ڈی ڈبلیو نے دھوکے سے 3 ارب 14 کروڑ روپے فاروقی پلپ ملز لمیٹڈ (ایف پی ایم ایل) کو منتقل کیے جو ان کے بیٹے اور قریبی عزیزوں کی ملکیت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میں تو دوست تھا، دشمنی کی طرف کیوں دھکیلا جارہا ہے، جہانگیر ترین

'کابینہ میں ہماری آواز کم، کاروباری طبقے کی زیادہ سنی جاتی ہے'

وفاقی وزیر نے کہا کہ 'وفاقی کابینہ میں سیاسی، نظریاتی اور کارپوریٹ سیکٹر کے پروفیشنلز بھی ہیں اور ہر کسی نے اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں، ہم جیسے دیہی ثقافت کی نمائندگی کرنے والے اور دیگر لوگوں کا کارپوریٹ سیکٹر کے لوگوں سے مختلف معاملات پر اختلاف رائے رہتا ہے، بدقسمتی سے ہم چونکہ دیہی پس منظر کے لوگ ہیں اس لیے ہماری آواز اس طرح نہیں سنی جاتی جس طرح کاروباری طبقے کی سنی جاتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'کابینہ میں پالیسیاں عوام کے لیے بنتی ہیں لیکن کارپوریٹ سیکٹر کی پالیسی حاوی ہوجاتی ہے جس کا وزیر اعظم کو بھی ادراک ہے'۔

حکومت کی کارکردگی اور مہنگائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'ڈھائی سال میں وزیر اعظم عمران خان نے کافی کچھ سیکھا ہے، ان کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی اور اب بدلا ہوا وزیر اعظم اور بدلی ہوئی کابینہ نظر آئے گی، ہم غلطیاں دور کرکے اپنی اصلاح کریں گے اور بہتر پالیسیاں لا کر عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کریں گے'۔

احتساب کے عمل سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'احتساب بلاامتیاز ہو رہا ہے، میں خود نیب کے ریڈار میں ہوں، کابینہ کے دیگر موجودہ اراکین کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے، ہمارے دو وزرا علیم خان اور سبطین خان جیل گئے'۔

تبصرے (0) بند ہیں