امریکا کی پاکستان کو آب و ہوا سے متعلق اجلاس میں شرکت کی دعوت

20 اپريل 2021
امریکا نے ابتدائی طور پر پاکستان کو اس اجلاس کے لیے نظر انداز کردیا تھا اور پاکستان کو دعوت نہیں دی گئی تھی— فائل فوٹو: رائٹرز
امریکا نے ابتدائی طور پر پاکستان کو اس اجلاس کے لیے نظر انداز کردیا تھا اور پاکستان کو دعوت نہیں دی گئی تھی— فائل فوٹو: رائٹرز

امریکا نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق وزیر اعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم کو اس ہفتے کے آخر میں صدر جو بائیڈن کی زیر قیادت منعقد ہونے والے آب و ہوا سے متعلق ورچوئل لیڈرز سمٹ میں ممتاز مقرر کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی ہے۔

امریکی صدر نے گزشتہ ماہ سربراہی اجلاس میں ہندوستان، چین اور بنگلہ دیش سمیت 40 ممالک کے رہنماؤں کو مدعو کیا تھا، اس وقت یہ سمجھا گیا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے دنیا کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ملک ہونے کے باوجود کانفرنس میں شریک ممالک کی فہرست سے پاکستان کا نام نکال دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: آب و ہوا میں تبدیلی سے ہر سال مزید موسمیاتی تباہی آئے گی، اقوام متحدہ

تاہم ملک امین اسلم نے پیر کو اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان سے کل اس اجلاس میں شرکت کے لیے اجازت لی جائے گی۔

17 اپریل کو ملک امین اسلم کو لکھے گئے اس خط میں امریکی خصوصی صدارتی ایلچی برائے آب و ہوا جان کیری نے کہا کہ میں امریکا کے صدر کی طرف سے آب و ہوا سے متعلق ورچوئل لیڈرز سمٹ میں بطور مقرر آپ کو شرکت کی دعوت دینا اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں، ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ 22 اپریل کو 'آب و ہوا کی موافقت اور لچک' کے موضوع سے منعقد ہونے والی گفتگو میں دیگر وزرا اور رہنماؤں کے ہمراہ اس کا حصہ بنیں۔

اس دعوت نامے کے مطابق لیڈرز سمٹ میں دنیا کی بڑی معیشتوں اور دیگر شراکت داروں کے لوگ ایک جگہ جمع ہوں گے جس میں عالمی رہنما موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کو مستحکم کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد بائیڈن کاموں میں سے ایک یہ تھا کہ وہ اریکا کو دوبارہ پیرس معاہدے کا حصہ بنائیں جو ایک ایسا عالمی فریم ورک ہے جس میں اراکین کو ماحولیات کے حوالے سے مشترکہ کوششیں کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا ماحولیاتی تبدیلی کے 'پیرس معاہدے' سے باضابطہ دستبردار

جو بائیڈن نے کہا تھا کہ امریکا نومبر میں گلاسگو میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کی کانفرنس میں شرکت سے قبل آب و ہوا کے حوالے سے تمام ممالک کے ساتھ مل کر مربوط حکمت عملی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ قائدین کے اجلاس کے وقت تک امریکا 2030 کے لئے آب و ہوا کا ایک منصوبہ پیش کرے گا کیونکہ پیرس معاہدے کے تحت ہماری قومی سطح پر طے شدہ شراکت ہے، صدر نے دیگر رہنماؤں پر بھی زور دیا کہ وہ اس اجلاس میں آ کر بتائیں کہ ان کی حکومتیں 1.5 ڈگری سینٹی کی حد تک قابو میں رکھنے کے لیے کیا قدامات کررہی ہیں۔

اس سربراہی اجلاس میں توانائی اور آب و ہوا کے بارے میں اہم معیشتوں کے فورم کی بحالی ہوگی جس کے ساتھ ہی عالمی اخراج کے 80 فیصد ذمے دار 17 ممالک ایک جگہ جمع ہو کر اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔

مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ "اجلاس میں دیگر ممالک کی آواز کو شامل کرنے کے لیے صدر نے چند اضافی ممالک کے سربراہوں کو بھی مدعو کیا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا شکار ہیں۔

جان کیری نے ملک امین اسلم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ہمیں امید ہے کہ آپ آب و ہوا کی موافقت اور لچک پر مبنی سیشن میں پاکستان کے قیمتی نقطہ نظر کو پیش کریں گے۔

مزید پڑھیں: تحفظِ ماحول کی کوششیں اور پاکستان کے لیے مواقع

انہوں نے کہا کہ صدر بائیڈن اور مجھے امید ہے کہ آپ اس اجتماع میں حصہ لینے کے قابل ہوں گے۔

امریکہ آب و ہوا کے بحران پر ‘پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہے

امریکہ کی میزبانی میں ہونے والی اجلاس سے پاکستان کے اخراج پر ماہرین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان متعددد عالمی فورمز پر اس مسئلے کو اٹھا چکے ہیں اور یہ باور کرا چکے ہیں کہ ناصرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔

تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ امریکا، پاکستان کے ساتھ مختلف سطحوں پر آب و ہوا کے بحران پر کام کرنے کا منتظر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی انتخابات میں موسمیاتی تبدیلی کا رخ بھی متعین ہوگا، ماحولیاتی ماہرین

جب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان سے ڈان نے پوچھا تھا کہ پاکستان کو عالمی اجلاس سے کیوں نظر انداز کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ امریکا ماحولیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان سمیت تمام ممالک سے تعاون کرنے کو تیار ہے۔

اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے اس حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کو وائٹ ہاؤس کے سربراہی اجلاس میں اس لیے مدعو نہیں کیا گیا تھا کیونکہ وہ پاکستان سے سب سے کم اخراج ہوتا ہے اور اس کا اخراج میں حصہ صرف ایک فیصد ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں