ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا خطرہ جسے طبی زبان میں بریک تھرو انفیکشنز کہا جاتا ہے، کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

راک فیلر یونیورسٹی کے 417 ملازمین کو فائزر یا موڈرنا ویکسینز کی 2 خوراکیں دی گئی تھی، جن میں سے 2 یا اعشاریہ 5 فیصد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی۔

محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق کا مقصد ویکسین بریک تھرو انفیکشنز کی جانچ پڑتال کرنا تھا اور ہمارا ویکسنیشن کے عمل کو متاثر کرنا نہیں۔

راک فیلر یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین نے دریافت کیا کہ اوریجنل وائرس کی بجائے اس کی مختلف نئی اقسام ویکسنیشن کے عمل سے گزرنے والے افراد میں کووڈ کا باعث بنتی ہیں۔

تحقیق میں جن افراد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی، ان میں سے ایک میں میوٹیشن ای 484 کے کو دیکھا گیا جو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں دریافت کورونا کی قسم میں دیکھنے میں آیا تھا، جسے اسکیپ میوٹنٹ کا نام بھی دیا گیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ میوٹیشن ویکسین سے پیدا ہونے والی کھ اینٹی باڈیز سے گزرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اسی طرح دونوں مریضوں میں ایک میوٹیشن ڈی 614 جی کو بھی دیکھا گیا جو وبا کے آغاز میں منظرعام پر آئی تھی۔

دونوں میں سے ایک 51 سالہ صحت مند خاتون تھی جس نے موڈرنا ویکسین کی دوسری خوراک 19 فروری کو استعمال کی اور 19 دن بعد کووڈ 19 کی تشخیص 10 مارچ کو ہوئی۔

اسی طرح ایک صحت مند 65 سالہ خاتون میں بھی کووڈ کی تشخیص ہوئی جس نے فائزر ویکسین کی دوسری خوراک 9 فروری کو لی تھی اور بعد میں ان کے شوہر میں کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی، جس کے بعد وہ خاتون بھی بیمار ہوگئیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ ویکسنیشن افراد میں کووڈ کے امکان کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کورونا کی کونسی اقسام یہ خطرہ بڑھا سکتی ہیں۔

تاہم محققین کا کہن تھا کہ کووڈ 19 ویکسینز استعمال کرنے والے کچھ افراد میں بیماری کا امکان ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی ویکسین 100 فیصد تحفظ فراہم نہیں کرتی۔

حال ہی میں امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے بتایا تھا کہ امریکا میں 8 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ افراد کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی ہے اور ان میں سے 6 ہزار سے بھی کم میں کووڈ کی تصدیق ہوئی۔

سی ڈی سی نے بتایا کہ ان میں 40 فیصد افراد کی عمر 60 سال یا اس سے زیادہ تھی جبکہ 29 فیصد میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔

اس نئی تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں