اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ قابل گرفت یا نا قابل ضمانت جرم میں ضمانت قبل از گرفتاری غیر معمولی سہولت ہے جو ایک معصوم شہری کی ساکھ اور عزت کے تحفظ کے واحد مقصد کے لیے دی جاتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی امین نے ایک فیصلے میں تحریر کیا کہ یہ عدالتی تحفظ غیر جانبداری پر بنیاد کرتا ہے اور شواہد کی بنیاد پر قائم ہر 'رن آف دی مل' مجرمانہ کیس میں نہیں دی جاسکتی۔

جسٹس قاضی امین احمد اس 3 رکنی بینچ کے رکن تھے جس نے مقبول احمد مہیسر، حافظ سہیل احمد، محمد پریال سولنگی کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: ضمانت قبل از گرفتاری دینے میں احتیاط برتنی چاہیے، سپریم کورٹ

مذکورہ درخواست میں سندھ ہائی کورٹ کے مارچ 2021 کے مختلف احکامات کو چیلنج کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

علیحدہ احکامات کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ کے سکھر بینچ نے مختلف نیب ریفرنسز میں ضمانت قبل اور بعد از گرفتاری کی اجازت دی تھی جو درخواست گزار کی جانب سے مبینہ غبن کی رقم قومی خزانے میں جمع کروانے سے مشروط تھی۔

نومبر 2019 میں بھی جسٹس قاضی امین نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے خلاف دائر متعدد اپیلوں کو نمٹاتے ہوئے کہا تھا کہ ضمانت قبل از گرفتاری ایک غیر معمولی علاج ہے اور اسے صرف بے گناہ افراد کو قانون کے غلط استعمال سے بچانے کے لیے احتیاط سے استعمال کیا جائے۔

حالیہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس قاضی امین نے طلعت اسحٰق بنام نیب کیس کا ذکر کیا اور کہا کہ اس وقت سے ضمانت پر ملزم کی رہائی کے لیے ہدایات قانون کے خلاف ہیں۔

مزید پڑھیں:ضمانت منسوخ کرنے کیلئے مضبوط جواز ضروری ہے، سپریم کورٹ

انہوں نے کہا کہ موجودہ کیس میں نیب آرڈیننس کے تحت الزامات کا سامنے کرنے والے ملزم کی گرفتاری کے بعد ضمانت کی منظوری کے حوالے سے تحفظات کو واضح طور پر بیان کیا گیا تھا اس لیے ملزم کو مختلف معاملات میں طے شدہ پیرامیٹرز کے مطابق اہل ہونا پڑا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ 'یہاں باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، قابل گرفت اور ناقابل ضمانت جرائم میں ضمانت قبل از گرفتاری ایسی سہولت ہے جو عدالتی تحفظ کے اعتبار سے غیر معمولی ہے۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ مذموم اور ترجیحی مقاصد کے لیے نشانہ بننے والے شہری کی حفاظت کے واحد مقصد کے لیے قانون کی معمول کے رخ کو موڑ کر اس طرح کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں