پچھلے سال یہی دن تھے جب پرواز پی کے 8303 کا وہ روح فرسا حادثہ پیش آیا جو مجھ سمیت نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگی پر اثرانداز ہوا۔

اعداد و شمار کے مطابق 11 ملین میں سے ایک پرواز ایسی ہوتی ہے جو حادثے کا شکار ہوجائے۔ یعنی اتنا محفوظ ذریعہ سفر ہے لیکن کروڑوں میں سے وہ ایک حادثہ ہونے پر آئے تو جمعتہ الوداع پر ہوتا ہے اور عید پر اداسی بکھیر جاتا ہے۔

کسی بھی جہاز کے ٹیک آف اور لینڈنگ کے دوران 11 منٹ سب سے اہم ہوتے ہیں۔ 3 منٹ ٹیک آف کے بعد اور 8 منٹ لینڈنگ سے پہلے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب کوئی حادثہ یا ہنگامی صورتحال پیش آنے کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ویسے تو ٹیک آف اور لینڈنگ دونوں انتہائی حساس مراحل ہوتے ہیں لیکن ٹیک آف کر جانے کے بعد ایک مخصوص بلندی پر پہنچنے تک کا وقت بہت اہم ہوتا ہے۔ اسی طرح جہاز کو زمین پر اتارنے سے پہلے کا وقت بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔

اپنی 15 سالہ فضائی میزبانی کی نوکری کے دوران میرے ساتھ 2 بار ایسے واقعات پیش آئے۔ جہاز ٹیک آف کرنے ہی والا تھا کہ کپتان کو ایمرجنسی بریک لگانا پڑگئی۔ جہاز کا ایک ٹائر پھٹ گیا تھا۔ جس شدت کا دباؤ اس وقت میں نے اپنے جسم پر محسوس کیا وہ بیان نہیں کرسکتا۔ میری جمپ سیٹ کا رُخ جہاز کی پشت کی طرف تھا۔ جب یہ معاملہ پیش آیا تو میں کچھ دیر کے لیے بالکل سیٹ میں دھنس کر رہ گیا۔

بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ اس وقت اتنا دباؤ تھا کہ اگر بریک لگنے اور جہاز مکمل طور پر رُک جانے کے دوران کوئی حادثہ پیش آجاتا تو میں ہل بھی نہ پاتا۔ جہاز گھسیٹتا ہوا ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا، کوئی نشست یا کھڑکی ٹوٹ جاتی، حفاظتی رکاوٹیں روندتا ہوا جہاز آبادی میں جا گھستا، لیکن اس پورے وقت میں کچھ بھی نہیں کرپاتا کیونکہ ٹیک آف کے قریب پہنچ چکے جہاز کی رفتار اور پھر اس کو روکنے کے لیے اس سے زیادہ طاقتور بریکس لگ جانے کی وجہ سے اتنا دباؤ پیدا ہوجاتا ہے جیسے آپ کے اوپر پہاڑ رکھ دیا گیا ہو۔

دوسری مرتبہ یہ ہوا کہ پرواز اترنے والی تھی۔ دھند کا موسم تھا۔ لاہور کی دھند تو ویسے ہی بہت مشہور ہے۔ ضروری نہیں کہ دھند میں جہاز کبھی نہ اتر سکے۔ دھند اکثر ٹکڑوں میں آتی ہے اور اگر ہوا چل رہی ہو تو پھر پرواز اترنے کا چانس زیادہ ہو جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک ٹکڑا ہمیں بھی مل گیا کہ جس سے جہاز اتارنے کے لیے مقررہ حدِ نگاہ میسر آگئی۔ جیسے ہی رن وے پر اترنے لگے تو ایک دم ہوا چلی اور گہری دھند کا ایک ٹکڑا سامنے آ موجود ہوا۔ اسی وقت پوری طاقت سے کپتان نے جہاز کا تھروٹل کھینچ دیا اور جہاز واپس ٹیک آف کرگیا۔ اس وقت بھی مسافر اور ان کے ارمان جہاز کی سیٹوں میں دھنس کر رہ گئے تھے۔

ہمیں ٹریننگ میں بتایا جاتا ہے کہ اگر جہاز زمین پر کششِ ثقل کی طاقت ضرب 5 سے ٹکرائے گا تو جہاز میں موجود ٹرانسمیٹر چالو ہوجائیں گے اور امدادی کارروائیاں کرنے والے اداروں کو خبر ہوجائے گی اور وہ فلاں مقام پر مدد کو پہنچ جائیں۔

کششِ ثقل کی ایک اکائی کا مطلب یہ ہوا کہ جتنا وزن کسی چیز کا ہے جبکہ 5 اکائیوں کا مطلب یہ ہوا کہ وہ چیز اپنے 5 گنا وزن کے ساتھ زمین کی طرف کھینچی جائے۔ یہی حساب جہاز کے ساتھ لگائیں۔ کبھی پرواز اترتے وقت زور کا جھٹکا لگے تو مسافروں کو ڈر لگتا ہے کہ جہاز رن وے پر پھسل نہ جائے اور سوچیں اگر جہاز اپنے وزن سے 5 گنا زیادہ وزنی دباؤ کے ساتھ زمین یا پانی سے ٹکرائے تو کیا محسوس ہوگا؟ شاید ہی کچھ محسوس ہو کیونکہ اتنی تیزی سے زمین کی طرف ہوش و حواس میں پہنچ جانا بہت مشکل ہے۔

لڑاکا طیاروں کے پائلٹ 9 اکائیوں تک کششِ ثقل کا دباؤ برداشت کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق عام انسان کے لیے 3 اکائیاں بھی بہت ہیں اور 5 تو بغیر بے ہوش ہوئے ممکن نہیں۔ اسی خطرے کے پیشِ نظر جہاز کے کاک پٹ کو 18 اکائیاں برداشت کرنے تک کے قابل بنایا جاتا ہے۔

لیکن جب جہاز کے دونوں انجن فیل ہوجائیں تو جہاز کو کششِ ثقل سے کیسے بچایا جائے؟ یقیناً اس وقت جہاز میں اتنی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ اوپر اٹھ سکے کیونکہ جہاز کے انجن ہی اتنی طاقت پیدا کرتے ہیں کہ جہاز زمین کی کشش سے متصادم رہے اور اُڑتا رہے۔ پرواز پی کے 8303 کے ساتھ بھی ایک سال پہلے یہی ہوا ہوگا اور پھر وہ کتنی قوت سے ٹکرایا ہوگا کہ پاش پاش ہوگیا۔

میں نے اس حادثے کے بعد شاید ہی کوئی اچھا خواب دیکھا ہو۔ ذہن میں اکثر اس کریش کے مناظر بنتے رہتے ہیں۔ ایسا ہوتا تو شاید زیادہ لوگ بچ جاتے، ویسا ہوجاتا تو شاید سب لوگ بچ جاتے۔ اس وقت مسافر تو یہی سوچ رہے ہوں گے کہ جہاز اترنے لگا ہے۔ لیکن فرید بھائی، قیوم، عرفان، انعم، آمنہ اور اسما کو تو یہ سب باتیں پتا ہونے کے سبب محسوس ہوا ہوگا کہ کیا ہونے والا ہے۔ آگہی بھی عذاب ہی ہوتی ہے۔

بدقسمت طیارے میں سوار عملہ
بدقسمت طیارے میں سوار عملہ

فرید بھائی، قیوم، عرفان، انعم، آمنہ اور اسما، یہ میرے وہ دوست ہیں جن کے ساتھ میں نے کافی عرصہ کام کیا، اور بدقسمتی سے یہ تمام لوگ اس بدقسمت فلائٹ میں موجود تھے۔ جتنا کچھ میں آپ کو اس تحریر میں بتارہا ہوں، یہ تمام لوگ بھی کم از کم اتنا سب کچھ جانتے تھے، یعنی میرے یہ تمام دوست عام مسافروں سے بڑھ کر صورتحال کو اس وقت سمجھ چکے ہوں گے۔

مجھے معلوم ہے کہ 'ریپڈ ڈیسنٹ' یعنی جہاز کا ایک دم بلندی کھونا کیا ہوتا ہے اور اس میں کیسے دل حلق میں آجاتا ہے۔ ٹیک آف پوائنٹ پر بریک لگ جائے اور ٹچ ڈاؤن ہوتے وقت ٹیک آف ہوجائے تو موت کا منظر کیسے صاف دکھائی دینے لگ جاتا ہے۔ کسی طوفان میں پھنس کر جہاز بُری طرح ہچکولے کھائے تو سارے گناہ اور ان کی معافی مانگنا کیسے ایک دم یاد آجاتا ہے۔

جہاز کا پچھلا حصہ پہلے زمین سے ٹکرایا تھا۔ وہاں (میرے اندازے کے مطابق) قیوم، انعم اور اسما کام کر رہے تھے۔ انہوں نے سیٹ بیلٹ اور اچھی طرح کس لیے ہوں گے۔ شاید قیوم بھائی نے ہاتھ بڑھا کر دروازے کا ہینڈل بھی پکڑ لیا ہو کہ اچانک جھٹکے سے بچا جاسکے۔ آگے فرید بھائی سوچ رہے ہوں گے کہ لینڈنگ کے بعد کس طرح سب کو جہاز سے نکالنا ہے۔ لیکن قسمت کو جو منظور۔ میں تو سوچتا ہوں کاش وہ سب پہلے ہی بے ہوش ہوچکے ہوں۔ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ان کو پتا بھی نہ چلا ہو۔

جب حادثہ پیش آیا اس وقت میں ملتان میں تھا۔ اپنوں کے پاس۔ عید منانے۔ عید کیا منانی تھی۔ دن رات بس ٹی وی کے چینل بدل بدل کر دیکھتا رہتا کہ شاید کسی عملے یا مسافر کے بچ جانے کی خبر آجائے۔ یاخدا کوئی اور خوش قسمت ہو، کوئی معجزہ ہوجائے۔ کسی اور کی ماں یا بچوں کی دعا قبول ہوجائے لیکن بے سود۔

واپس لاہور آیا۔ میرے ساتھیوں کے تابوت میرے سامنے تھے۔ میں ان کے لواحقین سے نہیں مل سکا۔ وہیں کھڑا تھا پھر بھی نہ مل سکا۔ ہمت نہیں پڑی۔ مجھے تعزیت کرنی نہیں آتی۔ دُور کھڑا روتا رہا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں