وی سی کے عہدے کیلئے صرف مرد اُمیدواروں سے درخواستیں طلب کرنے پر حکومت پر تنقید

اپ ڈیٹ 26 مئ 2021
اللہ بخش سومرو یونیورسٹی کا بل گزشتہ برس منظور کیا گیا تھا—فائل فوٹو: فیس بک
اللہ بخش سومرو یونیورسٹی کا بل گزشتہ برس منظور کیا گیا تھا—فائل فوٹو: فیس بک

سندھ حکومت کے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ کی جانب سے وائس چانسلر کے عہدے کے لیے صرف مرد اُمیدواروں سے درخواستیں طلب کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے حال ہی میں سندھی، اردو اور انگریزی اخبارات میں جامشورو میں قائم شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ، ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج کے لیے وائس چانسلر کے خالی عہدے پر بھرنے کے لیے اشتہار دیا تھا۔

مذکورہ اشتہار میں وائس چانسلر کی درخواست دینے کے لیے امیدوار کی تعلیم پی ایچ ڈی، ایم فل یا ماسٹر کی شرط رکھی گئی تھی جب کہ اُمیدوار کے لیے 15 سالہ آرٹ ڈیزائن کا تجربہ اور عالمی جرائد میں ریسرچ پیپرز کی اشاعت کی شرط بھی رکھی گئی تھی۔

اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ امیدوار کی عمر کسی بھی طرح 65 برس سے زائد نہ ہو اور امیدوار کا تعلیم پڑھانے کا مجموعی تجربہ 20 سال ہو، جس میں سے 8 تک کا تجربہ ایڈمنسٹریشن کے عہدے کا بھی ہو۔

اشتہار میں معلومات دی گئی تھی کہ وی سی سرچ کمیٹی کی سفارش پر وزیر اعلیٰ سندھ امیدوار کو 4 سال کے لیے مقرر کریں گے اور ملازمت کے دوران تنخواہ سمیت دیگر مراعات بھی فراہم کی جائیں گی۔

دلچسپی رکھنے والے اُمیدوار کو تجویز دی گئی تھی کہ وہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ سے درخواست فارم ڈاؤن لوڈ کرکے اپنی درخواستیں پوسٹ کے ذریعے 21 جون تک بھجوائیں۔

اگرچہ اشتہار میں ہر جگہ ’امیدوار‘ کا لفظ استعمال کیا گیا تھا لیکن ایک جگہ پر ’مرد‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا۔

انگریزی کے اشتہار میں بھی ایک جگہ HE کا لفظ استعمال کیا گیا تھا—اسکرین شاٹ
انگریزی کے اشتہار میں بھی ایک جگہ HE کا لفظ استعمال کیا گیا تھا—اسکرین شاٹ

اشتہار میں ایک جگہ واضح لکھا گیا کہ ’مرد‘ ایچ ای سی کے معیار پر پورا اترتا ہو۔

پورے اشتہار میں صرف ایک جگہ ’مرد‘ کا لفظ استعمال کیا گیا جب کہ باقی ہر جگہ ’امیدوار‘ کا لفظ استعمال کیا گیا جو مرد و خواتین دونوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح انگریزی کے اشتہار میں بھی صرف ایک ہی جگہ ’HE‘ کا لفظ استعمال کیا گیا جو مرد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

مذکورہ اشتہار کے بعد سب سے پہلے خاتون سماجی رہنما اور سندھ یونیورسٹی جامشورو کی پروفیسر عرفانہ ملاح نے ٹوئٹ کرتے ہوئے اسے صنفی تفریق قرار دیا اور ساتھ ہی وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی مینشن کیا۔

عرفانہ ملاح کی ٹوئٹ پر ایک شخص نے لکھا کہ اشتہار میں جملوں کے حساب سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر ’مرد‘ غلطی سے لکھا گیا یا پھر اخبار والوں کی جانب سے ہی انجانے میں مذکورہ غلطی کی گئی ہے۔

صارف کو جواب دیتے ہوئے عرفانہ ملاح نے انہیں بتایا کہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ انگریزی کے اشتہار میں بھی سندھی اشتہار کی طرح ’مرد‘ لکھا گیا۔

عرفانہ ملاح کی جانب سے مذکورہ ٹوئٹ کرنے کے بعد کئی لوگوں نے سندھ حکومت اور خاص طور پر یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اشتہار کو صنفی تفریق قرار دیا۔

کچھ افراد نے لکھا کہ واضح طور پر نہ صرف صنفی تفریق ہے بلکہ خلاف قانون بھی ہے، سندھ حکومت ایسا نہیں کر سکتی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر 26 مئی کی سہ پہر تین بجے تک مذکورہ اشتہار کو اپ لوڈ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ویب سائٹ پر وی سی کے عہدے کے لیے درخواست فارم موجود تھا۔

مزید یہ کہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر مذکورہ یونیورسٹی کو فہرست میں بھی تاحال شامل نہیں کیا گیا۔

سندھ اسیمبلی نے گزشتہ برس جون میں شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ، ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج کے قیام کا بل منظور کیا تھا، جس کا نوٹی فکیشن جولائی 2020 میں ہی جاری کردیا گیا تھا۔

بل منظور ہونے کے بعد عارضی طور پر یونیورسٹی کا قیام دوسرے اداروں کی عمارت میں کیا گیا تھا اور اب وی سی کے عہدے کے لیے اشتہار دیا گیا ہے، جس کے بعد مزید بھرتیاں بھی کیے جانے کا امکان ہے۔

تاہم وی سی کے عہدے کے اشتہار میں ’مرد‘ کا لفظ لکھے جانے پر حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے اور فوری طور پر حکومت نے اس ضمن میں کوئی وضاحت بھی جاری نہیں کی۔

اللہ بخش یونیورسٹی کے قیام کا بل گزشتہ برس پاس کیا گیا تھا—فوٹو: سندھ اسمبلی ویب سائٹ
اللہ بخش یونیورسٹی کے قیام کا بل گزشتہ برس پاس کیا گیا تھا—فوٹو: سندھ اسمبلی ویب سائٹ

تبصرے (0) بند ہیں