ماہرین نے حکومت سندھ کے 'سگ گزیدگی کنٹرول منصوبے' پر سوالات اٹھا دیے

اپ ڈیٹ 30 مئ 2021
انہوں نے مزید کہا کہ دیہی سندھ میں ڈاکٹرز سگ گزیدگی کے مریضوں کی بھی تشخیص نہیں کر رہے—فوٹو: شٹر اسٹاک
انہوں نے مزید کہا کہ دیہی سندھ میں ڈاکٹرز سگ گزیدگی کے مریضوں کی بھی تشخیص نہیں کر رہے—فوٹو: شٹر اسٹاک

کراچی: آوارہ کتوں کی آبادی پر قابو پانے اور سگ گزیدگی (rabies) سے ہونے والی اموات کو روکنے کے لیے کتوں کی نسل کشی سے متعلق وزیر صحت سندھ کے بیان پر ماہرین نے کہا ہے کہ ان کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت خود تذبذب کا شکار ہے کیونکہ وہ پہلے ریبیز کنٹرول پروگرام کے تحت کتوں کے لیے ویکسین کی بڑی مقدار اور ان کی نس بندی کا آغاز کرچکی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے کہا کہ صوبائی وزیر کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری حکام اس مسئلے کی پوری جزیات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ صرف جانوروں کی بے قابو آبادی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ سگ گزیدگی کے معاملات سنبھالنے والے ڈاکٹروں کی تربیت کی شدید کمی کا بھی ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت سندھ کا سگ گزیدگی پر اراکین اسمبلی کی معطلی کا حکم دینے والے جج پر عدم اعتماد

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ چیپٹر کے صدر ڈاکٹر مرزا علی اظہر نے کہا نے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ صوبے بھر میں سگ گزیدگی کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد سول ہسپتال کراچی (سی ایچ کے) سمیت سرکاری ہسپتالوں میں علاج کروانے کے باوجود مہلک انفیکشن کا شکار ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ پوچھنا چاہیے کہ اگر سرکاری ہسپتالوں میں مناسب علاج دستیاب ہے تو معصوم لوگ سگ گزیدگی سے کیوں مر رہے ہیں۔

ڈاکٹر مرزا علی اظہر نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے کیسز سنبھالنے والے ڈاکٹروں کو مطلوبہ تربیت حاصل نہیں ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ خاص طور پر دیہی سندھ میں ڈاکٹرز سگ گزیدگی کے مریضوں کی بھی تشخیص نہیں کر رہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: سگ گزیدگی کے واقعات پر اراکین اسمبلی کی رکنیت معطل کرنے کا حکم

ڈاکٹر مرزا علی اظہر نے اس بات پر زور دیا کہ ڈاکٹروں کو تربیت دینا اور انہیں اینٹی ریبیز ویکسین اور ریبیز امیونوگلوبلین کی مناسب خوراک مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو آوارہ کتوں کو ایک مرتبہ ختم کرنے کا انتخاب کرنا چاہیے لیکن اسے مستقل حکمت عملی کے طور پر استعمال نہ کرے۔

ڈاکٹر مرزا علی نے کہا کہ حکومت کو لازمی طور پر آوارہ کتوں کو ویکسین اور حفاظتی ٹیکے لگانے کے لیے ایک نظام بنانا چاہیے جیسا کہ باقی دنیا میں کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیق کے مطابق کتوں کی آبادی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ٹھوس فضلہ کے ڈھیر ہیں اور حکومت صوبے میں کچرے کو اٹھانے اور اس کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے میں کتنی سنجیدہ ہے، یہ کوئی راز نہیں ہے۔

ریبیز فری پاکستان پروجیکٹ کی سربراہ اور انڈس ہسپتال میں متعدی بیماریوں کی سینئر ماہر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے بتایا کہ میں ذاتی طور پر 2 برس قبل وزیر صحت کے دفتر گئی اور سگ گزیدگی کے معاملے کے انتظام اور کتوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈاکٹروں کو تربیت دینے کا منصوبہ پیش کیا لیکن حکومت کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

مزید پڑھیں: سندھ: ویکسین نہ ہونے پر سگ گزیدگی کا شکار بچہ ماں کی گود میں دم توڑ گیا

انہوں نے کہا کہ حکومت کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ سول ہسپتال کراچی سمیت سرکاری شعبے کے ہسپتالوں میں علاج کروانے کے باوجود سگ گزیدگی کے مریض کیوں مر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ طبی عملے کو سگ گزیدگی کے کسیز میں دستیاب تربیت نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں