حکومت کا ٹیکس دہندگان کی گرفتاری کے اختیارات ختم کرنے کا عندیہ

اپ ڈیٹ 16 جون 2021
پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ ٹیکس افسران کو گرفتاری کے اختیارات منی مارشل لا لگتا ہے—فائل فوٹو: اے پی پی
پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ ٹیکس افسران کو گرفتاری کے اختیارات منی مارشل لا لگتا ہے—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) افسران کو بغیر وارنٹ کے لوگوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے فنانس بل میں موجود شق پر حزب اختلاف کے سخت اعتراض کے بعد وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے سینیٹ کو یقین دلایا کہ متنازع شق ختم کردی جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر قانون نے اس اصول پر اتفاق کیا کہ فیصلہ سنانے سے پہلے کسی شخص کی گرفتاری نامناسب ہوگی۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر کو اپریل میں ہدف سے 34 ارب روپے اضافی ٹیکس وصول

انہوں نے مزید کہا کہ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹم قوانین میں اس سے متعلق دفعات کا جائزہ لیا جائے گا۔

سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے مسئلہ اٹھایا اور اسے بنیادی حقوق کی دفعہ 203-اے کے خلاف قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس افسران کو گرفتاری کے اختیارات منی مارشل لا لگتا ہے۔

پیپلز پارٹی کی رہنما کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی فنانس ریونیو اور اقتصادی امور کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا جس نے متفقہ طور پر اسے مسترد کردیا اور فنانس بل سے دفعات کو ختم کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس کو بتایا گیا کہ کسٹم ایکٹ میں بھی یہی شق موجود ہے۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے بھی حکومت سے یقین دہانی چاہی کہ اس مقصد کے حصول کے لیے بیک ڈور استعمال نہیں کیا جائے گا۔

مزیدپڑھیں: ایف بی آر نے ٹریک اور ٹریس سسٹم کے لیے معاہدے پر دستخط کردیے

سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے کسٹم ایکٹ کے تحت اسمگلنگ کی تعریف میں لفظ ’خوردہ (ریٹیل)‘ شامل کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اس سے پنڈورا باکس کھل جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس افسران چھوٹے خوردہ فروشوں پر چھاپے مار سکیں گے اور اس سے ملک میں بدعنوانی کا دوسرا دروازہ کھل جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بھی بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے اس معاملے پر زور دیا کہ مالی جرائم میں گرفتاری فیصلے کے بعد ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں انہوں نے دودھ اور دہی پر 15 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے اور چینی، گندم کے آٹے اور گھی سمیت متعدد دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وفاقی بجٹ میں غریب اور متوسط طبقے کے لیے کوئی مثبت چیز پیش نہیں کی۔

جس پر وزیر قانون فروغ نسیم نے بجٹ عوام دشمن سے متعلق حزب اختلاف کے مؤقف کو مسترد کردیا اور کہا کہ اگر ایسا ہے تو پورے ملک میں چیمبر آف کامرس بجٹ کی تعریف کیوں کر رہے ہیں؟

مزید پڑھیں: نئے ایف بی آر چیئرمین کی تلاش جاری، جاوید غنی کی مدت میں توسیع کا بھی امکان

وزیر قانون نے اعدادوشمار میں ہیرا پھیری اور عوام دشمن ٹیکس عائد کرنے کے الزامات کو بھی بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی معاشی ٹیموں اور حکومت کے درمیان براہ راست بحث کی پیش کش کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ چیلنج نہیں ہے یہ ایک درخواست ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ افراط زر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اُمید ظاہر کی کہ جاری اقدامات کے ساتھ ہی آئندہ 6 ماہ کے دوران ایک واضح تبدیلی محسوس کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں