سابقہ بیوی کو آن لائن ہراساں کرنے والے شخص کو 12سال قید کی سزا

اپ ڈیٹ 18 جون 2021
ملزم نے فیس بُک پر جعلی اکاؤنٹس بنا کر سابقہ ​​اہلیہ کی غیر مہذب تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کیں— فائل فوٹو: رائٹرز
ملزم نے فیس بُک پر جعلی اکاؤنٹس بنا کر سابقہ ​​اہلیہ کی غیر مہذب تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کیں— فائل فوٹو: رائٹرز

کراچی کی مقامی عدالت نے سابقہ اہلیہ کو آن لائن ہراساں کرنے پر ایک شخص کو 12 سال قید کی سزا سنانے کے ساتھ ساتھ 30 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ بھی عائد کر دیا۔

ارشد ہادی پر فیس بک پر جعلی اکاؤنٹ بنانے اور 2016 میں اپنی سابقہ ​​اہلیہ کی غیر مناسب تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: چین: عدالت کا شوہر کو اپنی سابقہ بیوی کو گھریلو کام کا معاوضہ ادا کرنے کا حکم

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (شرقی) خالد حسین شاہانی نے دونوں فریقین کے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد پہلے سے محفوظ شدہ فیصلہ سنایا۔

استغاثہ کے مطابق شکایت کنندہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی کی شادی ارشاد ہادی سے ہوئی ہے لیکن ان کی غیر انسانی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے ازدواجی تعلقات ختم ہو گئے، ملزم نے تشدد اور قتل کی دھمکیاں دے کر اپنی سابقہ ​​اہلیہ کی کچھ غیر مناسب تصاویر اور ویڈیوز بھی بنائیں جن کا مقصد بلیک میل کرنا تھا۔

یہ جوڑا دبئی میں رہائش پذیر تھا جہاں متاثرہ خاتون نے شارجہ کی شرعی عدالت سے خلع حاصل کی تھی، انہوں نے سابقہ شوہر کے خلاف ہراساں کرنے کی شکایت بھی کی تھی لیکن بعد میں اس حوالے سے سمجھوتہ ہو گیا تھا۔

متاثرہ خاتون نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ 9 مارچ 2016 کو دبئی سے کراچی روانہ ہوئیں اور ان کے سابقہ شوہر بھی کراچی آ گئے، جب ملزم کو معلوم ہوا کہ وہ دوبارہ شادی کررہی ہیں تو وہ انہیں ملیر ہالٹ میں واقع ایک مکان میں لے گئے جہاں زبردستی ان کی نازیبا ویڈیو ریکارڈ کیں اور اسے ایک نقلی آئی ڈی سے متاثرہ خاتون کے والد اور بہن کو بھیجا۔

یہ بھی پڑھیں: سابقہ بیوی کو ہراساں کرنے پر ڈی آئی جی گلگت بلتستان برطرف

متاثرہ لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ وہ کراچی کے ایک اسکول میں دسویں جماعت میں پڑھتی تھیں جہاں ملزم استاد کی حیثیت سے کام کررہا تھا، دونوں کی اس وقت پہلی بار جان پہچان ہوئی اور بعد میں ان کی کسی اور سے شادی ہو گئی، کچھ سالوں بعد ان کی اپنے سابقہ شوہر سے علیحدگ ہو گئی جن سے ان کے تین بچے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ارشد ہادی کو ان کی کا علم ہوا تو انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک کے ذریعے ان سے رابطہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ملزم اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ان کے گھر بھی آیا تھا، جب اس نے انہیں شادی کی پیشکش کی تو انہوں نے اسے قبول کر لیا اور شادی کے بعد ان کے ہمراہ رہنے کے لیے شارجہ چلی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خلیجی ریاست میں قیام کے دوران شوہر کے تشدد سے تنگ آ کر انہوں نے اشتہاری ایجنسی میں نوکری شروع کردی تھی کیونکہ ارشد ہادی کی نوکری ختم ہو گئی تھی اور وہ انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا اور ملزم کا مطالبہ تھا کہ میں اپنے والدین اور گھر والوں سے رقم مانگوں کیونکہ اس پر ایک لاکھ 20 ہزار درھم سے زائد قرض چڑھ چکا تھا۔

متاثرہ خاتون نے بتایا کہ ملزم نے وہ مکان بھی اپنے نام کرا لیا جو ان کے اہل خانہ نے انہیں کراچی میں دیا تھا۔

مزید پڑھیں: بیوی کی اجازت کے بغیر تیسری شادی کرنے والے شوہر کی سرعام پٹائی

خصوصی سرکاری وکیل ذاکر حسین نے دعویٰ کیا کہ ایف آئی اے کی ٹیم نے فیس بک انتظامیہ سے موصول اطلاع کے ذریعے ملزم کو اس کے اپارٹمنٹ سے گرفتار کیا، ملزم نے اعتراف کیا کہ فیس بک کی آئی ڈی اس کے استعمال میں ہے جس کے ذریعے وہ فحش اور غیر اخلاقی پیغامات بھیج رہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ تفتیش کاروں نے ملزم کے قبضے سے ایک لیپ ٹاپ، موبائل فون، ایک گولی اور ایک انٹرنیٹ ڈیوائس ضبط کی اور ان ڈیوائسز سے کامیابی کے ساتھ ڈیٹا بھی مل گیا ہے۔

تفتیش کے دوران تفتیشی افسر نے گواہوں کے بیانات قلمبند کیے اور ضبط شدہ آلات کے فرانزک تجزیے کی ایک رپورٹ بھی حاصل کی اور ملزم کے خلاف چارج شیٹ دائر کی۔

فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 342 کے تحت درج اپنے بیان میں ملزم نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بے گناہی کا دعویٰ کیا۔

ملزم کے وکیل نے استدلال کیا کہ مبینہ جرم شارجہ میں ہوا جو موجودہ عدالت کے علاقائی دائرہ اختیار سے باہر تھا جبکہ اس کے مؤکل پر شارجہ کی عدالت پہلے ہی مقدمہ چلا چکی ہے لہٰذا پاکستان میں مقدمہ درج کرنا دوگنا سزا دینے جیسا ہو گا۔

جج نے یہ دعویٰ مسترد کرتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ پاکستان کے کسی بھی شہری نے اگر کوئی جرم پاکستان کی حدود سے باہر کیا ہو، تو بھی اسے اسی طرح جرم تصور کیا جائے گا جیسے کہ وہ جرم پاکستان میں کیا گیا ہو۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: گھریلو ناچاقی پر بیوی، بچوں سمیت 4 افراد قتل

جج نے نوٹ کیا کہ استغاثہ نے شک و شبے سے بالاتر ہو کر ملزم کے خلاف اپنا مقدمہ کامیابی کے ساتھ ثابت کردیا ہے۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اس طرح کے پہلوؤں سے پتا چلتا ہے کہ ملزم کا مقصد پاکستان کے اندر اور باہر خاتون کو بدنام کرنا تھا کیونکہ وہ شارجہ میں کام کرتی تھیں۔

عدالت نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ 2016 کی دفعہ 21 کے تحت جرم ثابت ہونے پر ملزم کو 5 سال قید اور 30 ​​لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا۔

عدالت نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 419 کے تحت بھی ملزم کو پانچ سال قید کی سزا سنائی اور 50،000 روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔

عدالت نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 500 کے تحت ملزم کو مزید دو سال قید کی سزا سنائی اور جرم ثابت ہونے پر 25 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں