200 سال پرانا 'کرمنل پرویسجر کوڈ' مقدمات میں تاخیر کی اصل وجہ ہے، شہزاد اکبر

اپ ڈیٹ 24 جون 2021
مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ ہمارا 1870 کا کرمنل پروسیجر کوڈ  قانونی سقم کی اہم وجہ ہے— فوٹو: ڈان نیوز
مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ ہمارا 1870 کا کرمنل پروسیجر کوڈ قانونی سقم کی اہم وجہ ہے— فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ نیا کرمنل پروسیجر کوڈ (سی پی سی) لانا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ 200 سال پرانا قانون ہماری ضروریات پوری کرنے سے قاصر اور مقدمات میں تاخیر کی اصل وجہ ہے۔

لاہور کے نجی ہوٹل میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ عالمی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کے باعث ہمارے شہروں میں سی پی سی کے اثرات پھر سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ ہم سب کے لیے آنکھیں کھولنے کا وقت ہے۔

مزید پڑھیں: جہانگیر ترین سمیت کسی کو ٹارگٹ نہیں کیا جارہا، نہ تحفظ دیا جارہا ہے، شہزاد اکبر

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی سرپرستی نے پہلے ہی دن سے قانون کے نفاذ کو غیر مؤثر کردیا اور یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل انٹیلی جنس کوآرڈینیشن کمیٹی کی سربراہی ڈی جی آئی ایس پی آر نہیں بلکہ وزیر اعظم کررہے ہیں، تمام خفیہ ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا حصہ ہیں کیونکہ اس کے مختلف حصے ہیں اور آئیڈیا یہی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کو آگے لے جایا جائے اور باہمی روابط کے ذریعے تمام خطرات کا سامنا کیا جا سکے اور یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ ہمیں کس سمت میں عملدرآمد کرنا ہے۔

مشیر برائے احتساب نے کہا کہ میڈیا کو اپنی ترجیحات کا تعین خود کرنا ہوگا کہ کتنی دیر انہوں نے انٹرٹینمنٹ دکھانا ہے، کتنی دیر سیاسی ٹاک شوز دکھانے ہیں، یہ کام حکومت نہیں کر سکتی کیونکہ اگر حکومت یہ کرے گی تو یہ سینسرشپ کے ضمرے میں آئے گا اور میڈیا کے اہم کردار کی وجہ سے عوام میں شعور اجاگر کرنا ان کی ذمے داری ہے۔

انہوں نے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے تناظر میں مذاکرات انتہائی ضروری شکل اختیار کر گئے ہیں جبکہ فاٹا کے قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد ہر سطح پر اس طرح کے مذاکرات نہیں ہو سکے جس کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے، سپریم کورٹ

اس موقع پر انہوں نے قوانین خصوصاً انسداد دہشت گردی ایکٹ کے غلط استعمال کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ 2004 سے 2019 تک اس ایکٹ کا غلط استعمال کیا گیا جس کے پیچھے بہت ساری وجوہات تھیں، اس کے پیچھے پولیس کی اپنی بھی کرپشن شامل ہے، آپ پیسے دے کر کسی پر بھی یہ ایکٹ لگوا سکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ایکٹ کا سیاسی استعمال بھی کیا گیا اور بہت سارے لوگوں نے سیاسی مخالفین کے خلاف دہشت گردی کی دفعات لگوا دیں اور اس کی بنیادی وجوہات سابق چیف جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلے میں بیان کی تھیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ اس وقت عدالتی عمل میں سب سے بڑی تنقید یہ کی جاتی ہے کہ فرد جرم عائد نہیں کی جاتی، بندے چھوٹ جاتے ہیں، ایف اے ٹی ایف والے بھی یہی کہتے ہیں، احتساب کے مقدمات میں سب سے بڑی تنقید بھی یہی کی جاتی ہے کہ تمام ثبوت دکھا دیتے ہیں لیکن مقدمہ چار سال تک چلتا رہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے طریقہ کار کے قوانین میں سقم کی وجہ سے ہے، ہمارا کرمنل پورسیجر کوڈ 1870 کا ہے، آج بھی گواہی کسی علاقائی زبان میں دی جاتی ہے، پوری دنیا ٹرانسکرپشن اور ریکارڈ شدہ ثبوتوں پر چلی گئی ہے لیکن ہمارے ہاں پشتو یا پنجابی میں گواہی دیتا ہے اور جج صاحب اپنی منطق اور وکیلوں کے ساتھ مل کر انگریزی یا اردو میں ترجمہ کر کے لکھوا دیتے ہیں، اس عمل میں بہت وقت ضائع ہوتا ہے اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں مقدمات میں اتنا وقت صرف ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے نیب سے احتساب عدالتوں کے ٹرائل میں تاخیر کی وجوہات طلب کرلیں

ان کا کہنا تھا ہم ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے اصلاحات کررہے ہیں، ہم دو مرحلوں میں کام کررہے ہیں اور کرمنل جسٹس ریفارم پر وفاقی حکومت نے کمیٹی بنائی ہوئی ہے جس کی سربراہی وزیر قانون کررہے ہیں۔

مشیر احتساب نے کہا کہ ثمرات سامنے آنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اس عمل پر کتنی سرمایہ کاری کرتے ہیں، ہم نے بجٹ میں قانون کے نفاذ کے حوالے سے سرمایہ کاری بڑھائی ہے، عدالتی عمل پر بھی سرمایہ کاری بڑھائی ہے، جب تک ہم نچلی عدالتوں کا بوجھ کم نہیں کریں گے اس وقت تک ٹرائلز میں بہتری نہیں آئے گی، پراسیکیوٹر، ججز کی ٹریننگ پر سرمایہ کاری نہیں کریں گے تو بہتری نہیں آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ نظام میں بہتری کے لیے ہمارے پاس دو طریقے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ہم موجودہ قوانین میں ترامیم کریں یا پھر اس کو بالکل نئے سرے سے تیار کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ 1990 کی دہائی میں لارڈ وولف کی رپورٹ کے بعد سول اور کرمنل پروسیجر کو نئے سرے سے تیار کیا اور ہم جو نظام چلا رہے ہیں، انہوں نے اسے ختم کر کے ازسرنو نیا نظام لے کر آئے۔

یہ بھی پڑھیں: ’مقدمے کے اندراج میں تاخیر کارروائی پر اثر انداز ہوتی ہے‘

شہزاد اکبر نے کہا کہ 90 کی دہائی کے وسط تک برطانیہ میں کرمنل ٹرائل بالکل ہماری طرح ہی ہوتا تھا کہ جج کی منشا اور مرضی کے مطابق سب چلتا تھا، اب ہر ٹرائل سے قبل کانفرنس ہوتی ہے کہ کب ٹرائل شروع کرنا ہے اور وہ طے کر لیتے ہیں کہ یہ ٹرائل کتنے دن چلے گا اور کوئی بھی ٹرائل 60 دن سے زائد نہیں چلتا اور پیچیدہ نوعیت کے ٹرائل یومیہ کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں بھی یہ ممکن ہے اگر ہم کرمنل پروسیجر کوڈ کو ازسرنو نیا بنائیں، یہ تھوڑا مشکل ہو گا کیونکہ برطانیہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ وکلا کے بارز تھیں اور یہاں بھی ہوں گی کیونکہ تبدیلی کسی کو بھی زیادہ اچھی نہیں لگتی۔

انہوں نے کہا کہ تبدیلی کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر آپ نے 40 سال ایک پروسیجر کوڈ کے تحت پریکٹس کی ہے اور آپ نیا کوڈ لے آتے ہیں تو 40 سال اور 4 سال کی پریکٹس والا دونوں ایک ہی جگہ سے آغاز کریں گے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا نیب کیسز کے حل میں تاخیر پر اظہار تشویش

مشیر احتساب نے کہا کہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ لوگ اس تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے لیکن 200 سال پرانا پروسیجر اب ہماری ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے اور بروقت ٹرائلز نہ ہونے اور مقدمات وقت پر مکمل نہ ہونے کی یہی وجہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں