کورونا وائرس کی وبا کے دوران 2 اہم ترین پیغامات دنیا بھر میں سامنے آئے، ایک تو گھر سے باہر فیس ماسک کا استمال اور بیمار ہونے پر ٹیسٹ کرانا۔

مگر اب سائنسدانوں نے ایسا فیس ماسک تیار کرلیا ہے جس میں ان دونوں کو اکٹھا کردیا گیا ہے۔

امریکا کے ہارورڈ یونیورسٹی اور میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے محققین نے ایسا منفرد فیس ماسک تیار کیا ہے جو کسی فرد میں کووڈ 19 کی تشخیص بھی کرسکتا ہے۔

انہوں نے ایک ویئرایبل بائیو سنسر تیار کیا ہے جو کسی مکمل لیبارٹری جتنا کام کرسکتا ہے مگر اتنا چھوٹا ہے کہ اسے کسی بھی فیس ماسک کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے۔

اس ماسک کو پہننے والا جب اس میں 15 سے 30 منٹ تک سانس لیتا ہے، سنسر کا بٹن کلک کرتا ہے اور مزید 90 منٹ میں اس کے کووڈ ٹیسٹ کا نتیجہ ایک ریڈ آؤٹ پٹی میں شو جاتا ہے۔

یہ طریقہ حمل کے ٹیسٹ کے لیے بازاروں میں عام ملنے والی پٹیوں جیسا ہے۔

اس منفرد ایجاد کے بارے میں تفصیلات طبی جریدے جرنل نیچر بائیو ٹیکنالوجی میں شائع ہوئیں۔

محققین نے بتایا کہ ہر وہ فرد جس کے پاس تشخیص کرنے والا یہ فیس ماسک ہوگا، وہ نہ صرف وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کرسکے گا بلکہ یہ بھی جان کسے گا کہ یہ تیزی سے تو نہیں پھیل رہا۔

یہ سنسر ماضی میں وائس کور کے ماہرین نے اس ویئرایبل فریز ڈرائیڈ کال فری ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔

سنسر کی تیاری کے لیے ماہرین نے مالیکیولر مشینری کی مدد لی تاکہ خلیات کو استعمال کرکے جینیاتی میٹریل جیسے ڈی این اے اور آر این اے کو شناخت کرسکے۔

یہ تفصیلات ایک فنگرپرنٹ کی طرح کام کرتی ہیں جس سے سنسر وائرس کو شناخت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

یہ سنسر ایک بٹن کو دبانے سے متحرک ہوجاتا ہے اور معمولی مقدار میں پانی کو خارج کرکے فریز ڈرائیڈ اجزا کو نمی فراہم کرتا ہے۔

محققین کے مطابق اس ٹیکنالوجی کو دیگر جراثیم جیسے انفلوائنزا کی شناخت کےل یے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی ڈیوائس سے فیس ماسک رئیل ٹائم ٹیسٹنگ کی متعدد رکاوٹوں کو دور کرسکتا ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ ٹیسٹنگ کی حساسیت کا موازنہ پی سی آر ٹیسٹوں سے کیا جاسکتا ہے اور نتائج اس کے مقابلے میں جلد حاصل کیے جاسکتتے ہیں۔

ان کے بقول یہ ڈیوائس سستی ہے اور اس کے پروٹوٹائپ کی قیمت 5 ڈالرز رکھی گئی ہے جبکہ فائنل پراڈکٹ کی قیمت اس سے بھی کم ہوگی۔

تاہم یہ کب تک عام صارفین کو دستیاب ہوسکے گا ابھی کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ پہلے محققین کو کمرشل پارٹنرز کو تلاش کرنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں