ہفتے میں ایک بار 38 سالہ غلام احمد اپنے کرپٹو کرنسی کنسلٹنگ بزنس سے وقت نکال کر ایک واٹس ایپ گروپ میں لاگ ان ہوتے ہیں جس کے سیکڑوں اراکین یہ جاننے کے لیے بے تاب ہیں کہ پاکستان میں کرپٹوکرنسی کی مائننگ اور تجارت کیسے ممکن ہے۔

گھریلو خواتین آمدنی کے ایک ذریعے کی خواہشمند ہیں تو دولت مند سرمایہ کار کرپٹو مائننگ ہارڈویئر خریدنا چاہتے ہیں، بیشتر افراد روایتی اسٹاک مارکیٹوں کو تو سمجھنے سے قاصر ہیں مگر وہ سب ہی اس ذریعے سے آمدنی کے حصول کے لیے بے تاب ہیں۔

غلام احمد نے خبررساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے بتایا 'جب میں سوالات کے سیشن کا آغاز کرتا ہوں تو پیغامات کا سیلاب آجاتا ہے، اور میں گھنٹوں ان کو جواب دیتا رہتا ہوں اور کرپٹو کرنسی کے بنیادی عناصر کی تعلیم دیتا ہوں'۔

غلام احمد نے 2014 میں اپنی ملازمت چھوڑ دی تھی اور ان کا ماننا تھا کہ بٹ کوائن تیار کرنا زیادہ منافع بخش ہے۔

پاکستان میں کرپٹوکرنسی کی مائننگ اور تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور اس حوالے سے دلچسپی بڑھنے سے سوشل میڈیا پر متعلقہ ویڈیوز پر ہزاروں ویوز ہیں اور آن لائن ایکسچینجز کی ٹرانزیکیشنز بڑھ گئی ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی غیرقانونی نہیں، مگر عالمی منی لانڈرنگ کی روک تھام کرنے والے ادارہ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے اس صنعت کے لیے حکومت سے بہتر ریگولیشن کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہے جن میں ایسے ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی سرمایہ کاری کی روک تھام میں ناکام ہوگئے ہیں۔

اس کے ردعمل میں وفاقی حکومت نے کرپٹوکرنسی قوانین کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی کو تشکیل دیا ہے، جس میں ایف اے ٹی ایف کے مبصرین، وفاقی وزرا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے عہدیداران شامل ہیں۔

آکسفورڈ فرنٹیئر کیپیٹل کے شراکت دار اور کے اے ایس بی سیکیورٹیز کے چیئرمین کے ساتھ ساتھ حکومتی کمیٹی کے رکن علی فرید خواجہ نے بتایا 'کمیٹی کے نصف اراکین کو معلوم ہی نہیں کہ اس کا مقصد کیا ہے اور وہ اس کو سمجھنا بھی نہیں چاہتے'۔

انہوں نے مزید بتایا 'مگر یہ اچھی بات ہے کہ کسی نے اس کمیٹی کو تشکیل دیا، حکومت کے متعلقہ ادارے جو معاملات کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، وہ معاونت کررہے ہیں اور کوئی بھی تیکنیکی تنوع کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتا'۔

اسٹیٹ بینک کے سربراہ رضا باقر نے اپریل میں کہا تھا کہ اتھارٹی کی جانب سے کرپٹو کرنسیوں اور ان کی ٹرانزیکشنز سے متعلق تحقیق کررہی ہے تاکہ معاملات کو ریگولیٹری فریم ورک میں لایا جاسکے۔

انہوں نے اس موقع پر سی این این کو بتایا تھا 'ہمیں توقع ہے کہ اس حوالے سے آنے والے مہینوں میں ہم کچھ اعلانات کرسکیں گے'۔

تاہم انہوں نے اس حوالے سے رائٹرز سے بات کرنے سے انکار کیا۔

یہاں تک کہ تعلیمی شعبے میں بھی اس حوالے سے دلچسپی بڑھی ہے۔

فروری میں لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز کو ایک بلاک چین نیٹ ورک اسٹیکس کی جانب سے بٹ کوائن کو ایپس اور اسمارٹ کانٹیکٹس سے کنکٹس کرنے کے حوالے سے تحقیق کے لیے 41 لاکھ ڈالرز کی گرانٹ ملی تھی۔

قانون سازی اور سرمایہ کاری

مگر یہ تمام پیشرفت اتنی جلد کرپٹوکرنسی کے حامیوں کے بغیر ممکن نہ ہوپاتی۔

کرپٹوکرنسی کی تجارت کرنے والوں کے حوالے سے پہلے اداروں کی جانب سے شبہات اور خدشات کا اظہار کیا جاتا تھا کہ ان کا منی لانڈرنگ سے ممکنہ تعلق ہوسکتا ہے۔

غلام احمد نے بتایا کہ انہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 2 بار منی لانڈرنگ اور الیکٹرونک فراڈ کے الزامات کے تحت گرفتار کیا، تاہم ان الزامات کو عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک موقع پر ایف آئی اے نے ان کے ایک کرپٹوکرنسی مائننگ فارم کو ضبط کرلیا تھا جو انہوں نے خیبرپختونخوا کے علاقے شانگلہ میں قائم کیا تھا، جو ان کے اپنے ہائیڈرالیکٹرک پاور پر کام کرتا تھا۔

رائٹرز کی جانب سے رابطہ کرنے پر ایف آئی اے نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ٹی وی میزبان وقار ذکا کے یوٹیوب پر 10 لاکھ سے زیادہ فالورز ہیں اور وہ برسوں سے نہ صرف حکام میں اس صنعت کو قانونی حیثیت دلانے کے لیے لابنگ کررہے ہیں بلکہ حکومت کو اس میں سرمایہ کاری کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔

غلام احمد کی طرح وقار ذکا نے بھی ایک کرپٹوکرنسی مائننگ فارم قائم کیا جو ہائیڈرو الیکٹرک پاور پر چلتا ہے۔

اب خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے وقار ذکا اور غلام احمد کو اس کمیٹی کا حصہ بنادیا جو اس طرح کی سرمایہ کاری کے منافع بخش ہونے پر تحقیق کرتی رہی ہے۔

مارچ میں گروپ نے نئے مائننگ فارمز کے قیام کے امکانات کا اعلان کیا تھا جس کےلیے وقار ذکا کے مرکز کو ایک مثال کے طور پر استعمال کیا گیا۔

تمام تر چیلنجز کے باوجود پاکستان میں کرپٹوکرنسی کی تجارت کے بڑھتے رجحان میں کسی کمی کے آثار نظر نہیں آرہے۔

پاکستان تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا گروپس کی جانب سے کرپٹوکرنسی بنانے اور تجارت کی وضاحت کی جاتی ہے، کچھ کے تو فیس بک پر لاکھوں فالوورز ہیں، یوٹیوب پر اردو زبان میں کرپٹوکرنسی ویڈیوز کو لاکھوں بار دیکھا جاچکا ہے۔

آن لائن کرپٹوکرنسی ایکسچینجز کی اکثریت کا تعلق بیرون ملک ہے جیسے Localbitcoins.com میں سیکڑوں پاکستانی ٹریڈرز لسٹڈ ہیں، کچھ کی تو ہزاروں ٹرانزیکشنز ہیں۔

ویب اینالیٹکس کمپنی سیملز ویب کے مطابق ایپس جیسے Binance اور Binomo، جو کرپٹوکرنسی کی ٹریکنگ اور ٹریڈنگ کا کام کرتی ہیں، کو پاکستان کے چند بڑے بینکوں کی ایپس کے مقابلے سے زیادہ تعداد میں ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہے۔

غلام احمد کے مطابق 'آپ کرپٹو کو روک نہیں سکتے، تو پاکستان میں جتنی جلد معاملات کو ریگولیٹ کرکے باقی دنیا کے ساتھ شمولیت اختیار کی جائے گی، اتنا بہتر ہوگا'۔

تبصرے (0) بند ہیں