افغان سیکیورٹی فورسز کی درخواست پر امریکی فضائیہ کا طالبان کے ٹھکانوں پر حملہ

23 جولائ 2021
افغان حکومت نے طالبان کے ملک کے 90 فیصد سرحدی علاقوں پر قبضے کے دعوے کی تردید کردی — فائل فوٹو: رائٹرز
افغان حکومت نے طالبان کے ملک کے 90 فیصد سرحدی علاقوں پر قبضے کے دعوے کی تردید کردی — فائل فوٹو: رائٹرز

امریکی فضائیہ نے افغانستان کے شہر قندھار کے مضافات میں افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پینٹا گون کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکی فضائیہ، جو دیگر غیر ملکی افواج کے ہمراہ افغانستان سے انخلا مکمل کرنے والی ہے، نے گزشتہ شب افغان سیکیورٹی فورسز کو فضائی مدد فراہم کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

مزید پڑھیں: امن معاہدے کے لیے افغان صدر کا عہدہ چھوڑنا ضروری ہے، طالبان

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ فضائی حملے ملک کے جنوبی شہر قندھار کے مضافات میں کیے گئے تھے جس میں ان کے 3 جنگجو مارے گئے جبکہ 2 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم ان فضائی حملوں کی تصدیق کرتے ہیں اور ان حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہے۔

طالبان کے ترجمان نے مزید کہا کہ ‘اگر انہوں نے مزید حملے کیے تو نتائج کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے’۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی— فائل فوٹو: اے پی
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی— فائل فوٹو: اے پی

علاوہ ازیں رپورٹ میں بتایا گیا کہ فوری طور پر افغانستان میں موجود امریکی فورسز کے ترجمان سے اس حوالے سے رد عمل اور حملے کی دیگر تفصیلات حاصل نہیں کی جاسکیں۔

دوسری جانب غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق حملوں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پینٹاگون کے ترجمان نے بتایا تھا کہ ‘ہم نے گزشتہ کچھ دنوں میں اے این ڈی ایس ایف کی مدد کے لیے متعدد فضائی کارروائیاں کی ہیں لیکن میں اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کرسکتا’۔

علاوہ ازیں ایک اور دفاعی عہدیدار نے بتایا کہ بدھ اور جمعرات کو امریکی فضائیہ کی جانب سے مجموعی طور پر 4 فضائی حملے کیے گئے، جس میں سے کم سے کم دو حملوں میں طالبان کا نقصان ہوا ہے، جس میں ان کے قبضے میں موجود گاڑی اور ہتھیاروں کو نقصان پہنچا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ان حملوں کے لیے افغان حکومت کی جانب سے درخواست کی گئی تھی، جس میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں قندھار میں کیا جانے والا حملہ بھی شامل تھا۔

یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے متعدد مرتبہ اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ ان کے انخلا کے بعد افغان سیکیورٹی فورسز طالبان کا مقابلہ کریں گی اور جہاں ضرروت ہوئی امریکی فورسز ان کو مدد فراہم کریں گی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی کے پیش نظر تاجکستان ایک لاکھ مہاجرین کو جگہ دینے کیلئے تیار

واضح رہے کہ بدھ کو ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکا کے چیئرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل مارک میلی نے کہا تھا کہ افغانستان کا مستقبل یہاں کے باشندوں کے ہاتھ میں ہے اور ان پر زور دیا تھا کہ وہ جنگ میں مقابلہ کریں۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘افغان سیکیورٹی فورسز کے پاس وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ہر قسم کی جنگ لڑ سکیں اور اپنے ملک کا دفاع کرسکیں جبکہ امریکی صدر اور سیکریٹری دفاع کی ہدایات کے مطابق ہم جہاں ضرورت پڑی افغان سیکیورٹی فورسز کو مدد فراہم کرتے رہیں گے’۔

طالبان کا 90 فیصد سرحدی کنٹرول کا دعویٰ چھوٹ ہے، افغان حکومت

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے ملک کے 90 فیصد سرحدی علاقوں پر قبضے کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے افغان حکومتی عہدیداروں نے اسے چھوٹ قرار دے دیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغان وزارت دفاع کے نائب ترجمان فواد امین کا کہنا تھا کہ 'یہ بے بنیاد پروپیگنڈا ہے'۔

یاد رہے کہ طالبان اور افغان حکومت، دونوں کے ہی دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

گزشتہ روز طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے افغانستان کے ہمسایہ مملک تاجکستان، ایران، ترکمانستان اور پاکستان کے ساتھ منسلک سرحدوں پر 90 فیصد کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

جس پر رد عمل دیتے ہوئے افغان وزارت دفاع کے نائب ترجمان نے اصرار کیا کہ افغان فورسز کے پاس ملک کے بیشتر حصے کا کنٹرول موجود ہے اور وہ سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود اہم شہروں اور ہائی ویز کا کنٹرول بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسپن بولدک کا کنٹرول واپس لینے کیلئے افغان فورسز کی طالبان سے لڑائی

علاوہ ازیں افغان وزارت داخلہ کے ترجمان میرواعظ سنتکزئی نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ‘افغان فورسز بہت جلد دہشت گردوں سے بدلہ لیں گی’۔

واضح رہے کہ اپریل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ رواں سال 11 ستمبر سے قبل امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہو جائے گا، یہ وہ تاریخ ہے جب نائن الیون واقعے کی برسی منائی جائے گی۔

امریکی صدر کے اعلان کے ساتھ ہی افغانستان سے امریکا سمیت دیگر ممالک کی افواج نے انخلا شروع کردیا تھا اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ انخلا اگست کے آخری ہفتے میں مکمل ہوجائے گا تاہم دوسری جانب غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے افغانستان کے بیشتر اضلاع پر قبضہ حاصل کرلیا اور وہ مزید پیش قدمی کررہے ہیں جس سے افغان حکومت میں تشویش پائی جاتی ہے۔

خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ امریکا و نیٹو افواج کے انخلا کے بعد جنگ زدہ ملک میں 20 سال تک جاری رہنے والی امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بھی اختتام پذیر ہوجائے گی لیکن زمینی حقائق ملک میں ایک اور خانہ جنگی کا پیش گوئی کررہے ہیں جس کی وجہ سے افغانستان کے ہمسایہ ممالک نے مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں