بڑھتی عمر کے ساتھ دماغ کو تیز رکھنے کا آسان نسخہ جان لیں

24 اکتوبر 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

ہر اچھی چیز کی طرح نیند بھی اسی وقت بہترین ہوتی ہے جب سونے کا دورانیہ بہت کم یا زیادہ نہ ہو۔

درحقیقت عمر بڑھنے کے ساتھ جو لوگ بہت کم یا بہت زیادہ سونے کے عادی ہوتے ہیں ان میں دماغی تنزلی کا خطرہ درست وقت تک نیند کے مزے لینے والوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

ناقص نیند اور الزائمر امراض دونوں دماغی تنزلی سے منسلک ہیں اور ان دونوں کے اثرات کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چیلنج سے کم نہیں۔

واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں متعدد معمر افراد کے دماغی افعال کا جائزہ کئی سال تک لیا گیا جبکہ الزائمر سے متعلق پروٹینز اور نیند کے دوران دماغی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔

محققین نے اہم ڈیٹا اکٹھا کیا جس سے نیند، الزائمر اور دماغ افعال کے پیچیدہ تعلق کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

الزائمر معمر افراد میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والا اہم ترین وجہ ہے جو 70 فیصد ڈیمینشیا کیسز کا باعث بنتا ہے۔

ناقص نیند اس بیماری کی ایک عام علامت ہے اور اس کے بڑھنے کی رفتار کو تیز کردیتی ہے۔

محققین نے بتایا کہ نیند کا دورانیہ دماغی کارکردگی کو وقت کے ساتھ مستحکم رکھنے کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

تحقیق میں 100 معمر افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں الزائمر کے ابتدائی آثار دریافت ہوئے تھے اور دریافت ہوا کہ 6 سے 8 گھنٹے کی نیند دماغی افعال کو مستحکم رکھتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر کوئی فرد ساڑھے 5 گھنٹے سے کم وقت سونے کا عادی ہوتا ہے تو اس کی دماغی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور یہی ایسے افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے جن کی نیند کا دورانیہ ساڑھے 7 گھنٹوں سے زیادہ ہو۔

تحقیق کے مطابق نیند کا کم دورانیہ ہی نہیں بلکہ زیادہ سونے سے بھی دماغی تنزلی کی رفتار تیز ہوجاتی ہے، اس سے عندیہ ملتا ہے کہ نیند کا دورانیہ نہیں بلکہ معیار کنجی ہے۔

یعنی ایسی نیند جس کے دوران لوگ نیند کے چاروں مراحل سے ہر رات 4 سے 6 بار گزریں۔

چونکہ ہر سائیکل کا دورانیہ 90 منٹ کا ہوتا ہے تو بیشتر افراد کو اس ہدف کے حصول کے لیے 7 سے 8 گھنٹے کی مسلسل نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

نیند کے اولین 2 مراحل میں اپنے ردہم کو گھٹانا شروع کرتا ہے، دھڑکن اور سانس کی رفتار سست ہوتی ہے، جسمانی درجہ حرارت گھٹ جاتا ہے اور آنکھوں کی حرکت تھم جاتی ہے۔

اس سے اگلے مرحلے کی تیاری ہوتی ہے یعنی گہری نیند کی، یہ وہ وقت ہوتا ہے جب دماغ دن بھر کی بھاگ دوڑ سے جسم پر مرتب اثرات کی مرمت شرع کرتا ہے اور جسم خلیاتی سطح پر خود کو بحال کرتا ہے۔

آخری مرحلہ وہ ہوتا ہے جب ہم خواب دیکھتے ہیں جس کے لیے ریپڈ آئی موومنٹ سلیپ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل برین میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں