افغانستان: طالبان نے 4 خواتین کے قتل کی رپورٹس کی تصدیق کردی

06 نومبر 2021
خواتین کی لاشیں ملنے کی تصدیق سماجی کارکان کے قتل کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد کی گئی — فوٹو: رائٹرز
خواتین کی لاشیں ملنے کی تصدیق سماجی کارکان کے قتل کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد کی گئی — فوٹو: رائٹرز

طالبان حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے شمالی شہر مزارِ شریف میں 4 خواتین کی لاشیں ملی ہیں۔

خواتین کی لاشیں ملنے کی تصدیق سماجی کارکان کے قتل کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد کی گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغان وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ شہر کے پانچویں پولیس ضلع میں ایک گھر سے 4 لاشیں برآمد ہونے کے بعد دو ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’گرفتار افراد نے ابتدائی تفتیش میں اعتراف کیا کہ انہوں نے خواتین کو گھر میں مدعو کیا تھا، ملزمان سے مزید تفتیش جاری ہے اور کیس عدالت کو بھیج دیا گیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: فائرنگ سے 3 خواتین پولیو ورکرز جاں بحق

قاری سعید خوستی نے متاثرین کی شناخت نہیں کی تاہم ذرائع نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ قتل ہونے والی خواتین میں سے ایک خواتین کے حقوق کی رہنما تھیں جن کے خاندان نے میڈیا سے بات کرنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔

بی بی سی فارسی کی رپورٹ میں سول سوسائٹی کے حوالے سے کہا گیا کہ چاروں خواتین دوست اور ساتھی تھیں جنہیں بیرون ملک روانگی کے لیے مزار شریف ایئرپورٹ کا سفر کرنا تھا۔

انسانی حقوق کے گروپ کے ذرائع نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ خواتین کو کال موصول ہوئی تھی جسے انہوں نے ملک سے انخلا کے لیے پرواز میں سفر کرنے کا دعوت نامہ سمجھا اور انہیں کار نے پِک کیا، تاہم بعد ازاں ان کی لاشیں ملیں۔

واضح رہے کہ طالبان کے آخری دور حکومت میں خواتین کی عوامی زندگی پر پابندی عائد تھی اور گروپ کی حکومت میں دوبارہ واپسی کے بعد متعدد انسانی حقوق کے رہنما ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان: خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں، طالبان

جو خواتین رہنما ملک میں رہ گئی ہیں انہوں نے کابل کی سڑکوں پر احتجاج کیا تھا جس میں انہوں نے ان کے حقوق کا احترام اور لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکول جانے کی اجازت دینے کے مطالبات کیے تھے۔

طالبان جنگجوؤں نے چند احتجاج کو طاقت کے ذریعے ختم کردیا تھا جبکہ حکومت نے غیر مجازی اجتماعات کی کوریج پر صحافیوں کو گرفتاری کی دھمکی دی تھی۔

تاہم گروپ کے رہنماؤں نے اصرار کیا تھا کہ ان کے جنگجوؤں کو سماجی رہنماؤں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور وعدہ کیا تھا کہ ایسا کرنے والے کو سزا دی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں