افغانستان: فائرنگ سے 3 خواتین پولیو ورکرز جاں بحق

اپ ڈیٹ 30 مارچ 2021
حکام کے مطابق دو مختلف واقعات میں خواتین کو قتل کیا گیا — فوٹو: اے ایف پی
حکام کے مطابق دو مختلف واقعات میں خواتین کو قتل کیا گیا — فوٹو: اے ایف پی

افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں مسلح افراد کی فائرنگ سے ملک بھر میں جاری پولیو مہم سے منسلک 3 خواتین جاں بحق ہوگئیں۔

خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق سرکاری عہدیداروں کا کہنا تھا کہ تین خواتین کو دو مختلف واقعات میں قتل کیا گیا۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت، طاقتور مقامی جنگجو کے درمیان تناؤ بڑھنے لگا

مہم کے سپروائزر وحیداللہ کا کہنا تھا کہ تمام خواتین بچوں کو ویکسین پلانے کے لیے گھر گھر جا کر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہی تھیں۔

گورنر ننگرہار کے دفتر کے ایک عہدیدار نے بھی واقعے کی تصدیق کی۔

مسلح افراد کی فائرنگ سے جاں بحق پولیو ورکرز میں سے ایک خاتون کے رشتہ دار کا کہنا تھا کہ ان کی بھتیجی نے اپنے اہل خانہ کے لیے پیسے جمع کرنے کے لیے پروگرام میں شمولیت کی تھی۔

حاجی مقبول کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے انہیں اس وقت گولی ماری جب وہ ڈیوٹی کے دوران بچوں کو ویکسین پلا رہی تھیں۔

عینی شاہد سیف اللہ نے کہا کہ تین مسلح افراد نے پولیو ورکرز کا پیچھا کیا اور فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دو خواتین دم توڑ گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین ایک گھر کے سامنے رک کر دروازہ بجا رہی تھیں اور ان کے پاس میڈیکل بکس اور کچھ پرچے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اسی موقع پر مسلح افراد ان کے قریب آئے اور خواتین پر فائرنگ کرکے فرار ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے متعلق فیصلے کیلئے تمام آپشنز زیر غور ہیں، امریکا

افغان وزارت صحت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ننگر ہار میں ویکسین مہم کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا ہے۔

افغانستان میں امریکی نمائندے روس ولسن نے واقعے کی مذمت کی۔

ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ یہ حملے افغانستان میں بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب کے سامنے رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیو ورکرز پر حملے بے رحمی اور ناقابل بیان ہیں۔

خیال رہے کہ پولیو کا افغانستان اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے خاتمہ ہوگیا ہے جبکہ ویکسین کے حوالے سے بداعتمادی سے مسائل میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔

افغان حکومت کے عہدیداروں کا مؤقف ہے کہ طالبان اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں گھر گھر مہم کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔

پولیو ورکرز پر حملے اور تین افراد کی ہلاکت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب طالبان اور دیگر فریقین کے درمیان مذاکرات گزشتہ ایک سال سے جاری ہیں جبکہ کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

صحافیوں، انسانی حقوق کے ورکرز، سرکاری ملازمین اور نامور افراد کو نشانہ بنایا گیا اور اس لہر سے ملک بھر میں خوف پایا جاتا ہے۔

حکومت مسلح کارروائیوں کا الزام طالبان پر عائد کرتی ہے جبکہ طالبان شہریوں کو نشانہ بنانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ 2 مارچ کو اسی طرح میڈیا سے منسلک تین خواتین کو جلال آباد میں قتل کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں