لندن: برطانیہ کی عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے بانی ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض کے 10 سالہ ملٹی انٹری وزٹ ویزا منسوخ کرنے کے ہوم آفس کے فیصلے کو اس بنیاد پر برقرار رکھا ہے کہ عوام کی بھلائی کے لیے ان کا برطانیہ سے بے دخلی مناسب ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہوم آفس نے ان کے ویزوں کی منسوخی کا فیصلہ نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی تحقیقات اور ملک ریاض کے ساتھ 2019 میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے پر غور کرنے کے بعد لیا تھا۔

مزیدپڑھیں: ملک ریاض اور ڈیلنگ کا فن

اپیل کو مسترد کرتے ہوئے برطانیہ کے عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہوم آفس کا یہ نتیجہ کہ ملک ریاض اور ان کا بیٹا بدعنوانی اور مالی/تجارتی بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں، بحریہ ٹاؤن کے معاملات میں ان کی شمولیت پر مبنی ہے۔

عدالت اور ہوم آفس دونوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات، نیب انکوائریز اور بحریہ ٹاؤن سے منسلک جے آئی ٹی رپورٹ پر بہت زیادہ انحصار کیا۔

خیال رہے کہ ملک ریاض اور ان کے بیٹے کے پاس برطانیہ کا 10 سالہ وزٹ ویزا بالترتیب 28 جولائی 2021 اور 18 مئی 2021 تک تھا۔

این سی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے بانی کے ساتھ اپنی تحقیقات اور تصفیہ کے اعلان کے ایک ہفتے بعد ہوم آفس نے 10 دسمبر 2019 کو ویزے منسوخ کر دیے۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن نے زمین کی رقم کی ادائیگی 3 سال کیلئے مؤخر کرنے کی استدعا کردی

عدالتی کارروائی شروع ہونے سے پہلے تنازع کو حل کرنے کی کوشش میں ملک ریاض کے وکلا نے ہوم آفس کو ایک پری ایکشن پروٹوکول (پی اے پی) پٹیشن دائر کی جس میں 31 جنوری 2020 کو ان کے ویزوں کی منسوخی کا تازہ فیصلہ لیا گیا تھا۔

اس کے بعد انہوں نے اپر ٹریبونل (امیگریشن اینڈ اسائلم چیمبر) میں عدالتی نظرثانی کی درخواست دائر کی۔

17 نومبر 2020 کو ٹریبونل نے ملک ریاض کے عدالتی نظرثانی کے دعوے کو مسترد کر دیا اور ہوم آفس نے ویزوں کی منسوخی کے بارے میں اپنے فیصلے میں ٹھیک پایا۔

ملک ریاض اور ان کے بیٹے نے اس کے بعد رائل کورٹس آف جسٹس میں سات بنیادوں پر ایک اپیل دائر کی جس نے عدالتی نظرثانی پر ٹریبونل کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

فیصلے میں ہوم آفس کی جانب سے ملک ریاض اور ان کے بیٹے کو لکھے گئے مراسلے کو شامل کیا گیا جس میں انہیں ویزوں کی منسوخی کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔

مزیدپڑھیں: جعلی اکاؤنٹ کیس: ملک ریاض پیر کو سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے

ملک ریاض اور ان کے بیٹے نے عدالت کے فیصلے کے خلاف مزید کہا کہ برطانیہ کے ہوم آفس اور ٹربیونل نے غلط نتیجہ اخذ کیا کہ اکثریت کی رائے نے بدعنوانی کے سنگین اور/یا ٹھوس ثبوت فراہم کیے ہیں۔

خیال رہے کہ این سی اے کا کام منی لانڈرنگ اور برطانیہ و بیرونِ ملک ہونے والی مجرمانہ سرگرمی سے حاصل ہونے والے غیر قانونی رقوم کی تحقیقات کرنا ہے، مؤخرالذکر صورتحال میں چوری شدہ پیسہ متاثرہ ریاستوں کو لوٹا دیا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 'کالے دھن' کے حوالے سے جاری تحقیقات کے دوران ملک ریاض کچھ عرصے کے لیے ادارے کے زیرِ تفتیش رہے تھے۔ 3 دسمبر 2019ء کو ادارے نے اعلان کیا کہ ملک ریاض کے ساتھ عدالت کے باہر 19 کروڑ پاؤنڈ (اب تک کا سب سے بڑا) کا تصفیہ کیا گیا ہے اور مزید یہ بھی بتایا گیا کہ اس 'تصفیے میں جرم تسلیم کرنے کا پہلو نہیں نکلتا‘۔

این سی اے سے ہونے والی ڈیل کا پاکستانی شہریوں کے ساتھ خاص تعلق اس وقت قائم ہوگیا جب ملک ریاض نے ٹوئیٹ میں بتایا کہ، 'میں نے سپریم کورٹ کو کراچی بحریہ ٹاؤن مقدمے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے مساوی رقم دینے کے لیے برطانیہ میں قانونی طور پر حاصل کی گئی ظاہر شدہ جائیداد کو فروخت کیا'۔

یہاں اس بات کو بھی یاد کیا جاسکتا ہے کہ جب یہ ثابت ہوگیا تھا کہ ان کے ریئل اسٹیٹ ادارے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ نے کراچی کے ضلع ملیر کے مضافات میں ہزاروں ایکڑوں پر محیط زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے تو چند ماہ قبل مارچ 2019ء میں ملک ریاض کی جانب سے سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے بطور جرمانہ دینے کی پیش کش کی گئی، جسے قبول کرلیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں