بین الاقوامی کتب میلوں میں پاکستان کی عدم شرکت سے کیا نقصان ہے؟

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2021
یہ میلہ تنازع سے محفوظ نہ رہ سکا کیونکہ چار لکھاریوں نے انتہائی دائیں بازو کے ناشرین  کی موجودگی کے باعث میلے کو خود سے محروم کردیا
یہ میلہ تنازع سے محفوظ نہ رہ سکا کیونکہ چار لکھاریوں نے انتہائی دائیں بازو کے ناشرین کی موجودگی کے باعث میلے کو خود سے محروم کردیا

رواں سال 20 سے 24 اکتوبر تک جاری رہنے والا فرینک فرٹ کتاب میلہ (ایف بی ایف) عالمی وبا کے بعد منعقدہ پہلا سب سے بڑا فزیکل کتاب میلہ تھا لہٰذا میلے کے شرکا بشمول ناشرین، مصنفین اور عام قارئین مسرت سے سرشار تھے۔

اگرچہ لوگوں کی تعداد کم تھی لیکن شرکا کی میلے میں دلچسپی ماند نظر نہیں آئی۔ ناشرین کی تعداد معمول سے تین گنا کم تھی لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ شرکا ان سے باآسانی بے تکلفانہ ملاقاتیں کرتے اور معنی خیز مباحثوں میں مصروف رہے۔ وہاں آنے والے ایک شخص کے بقول 'مجھے خوشی ہے کہ یہ کتاب میلہ معمول سے ہٹ کر ہے۔ کوئی افراتفری دیکھنے کو نہیں ملی'۔

اس میلے میں 105 ممالک سے تعلق رکھنے والے کتابی کاروبار و تجارت سے منسلک 36 ہزار مہمانوں جبکہ 85 ممالک سے آئے 37 ہزار کتب بینی کے شوقین خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ علاوہ ازیں، 80 ممالک کی 2 ہزار کمپنیوں اور 39 ممالک کے ساڑھے 3 ہزار میڈیا نمائندگان بھی موجود تھے۔

ہالز وسیع و عریض تھے اور مجمعہ اکٹھا نہ ہو اس مقصد سے کشادہ اسٹینڈز کا انتظام کیا گیا تھا۔ میلے میں داخلے سے قبل شرکا کے ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کو باریکی سے چیک کیا جاتا رہا۔ میلے کا عمومی نظم و ضبط مثالی تھا اور صفائی ستھرائی لاجواب تھی۔

پڑھیے: کتاب: جادو نگری کو جاتا سیدھا راستہ

عالمی اشاعتی اور موادی صنعت میں رہنما تجارتی میلے کی حیثیت رکھنے کے ناطے ایف بی ایف نے وہاں موجود لوگ اور بذریعہ انٹرنیٹ شامل افراد کے لیے بہت سے آپشنز رکھے تھے۔ خود چل کر میلے کا رخ کرنے اور ڈیجیٹل اور ہائبرڈ طریقوں سے میلے میں شامل ہونے پر شرکا متعدد پروگراموں میں سے اپنے من پسند پروگرام منتخب کرسکتے تھے۔ شہر میں کئی دیگر تقاریب کا سلسلہ بھی جاری تھا۔

ہر سال فرینک فرٹ کسی نہ کسی ملک یا خطے کو اپنا اعزازی مہمان چنتا ہے۔ اس سال Singular plurality کے نعرے کے ساتھ یہ مہمان کینیڈا بنا۔ اعزازی مہمان کو اپنے ادب، فنون، موسیقی، فلم اور تھیٹر پر مبنی پروگراموں کے ذریعے اپنی ادبی، ثقافتی اور سماجی زندگی کو اجاگر کرنے کے لیے خاص موقع فراہم کیا جاتا ہے۔

کینیڈا کے پاس نہ صرف ناشرین کی کثیر تعداد ہے بلکہ تواضع کے لیے ایسے زبردست مقام بھی ہیں جہاں بہترین کافی کے ساتھ ساتھ کینیڈین ادب کو انگریزی، فرانسیسی اور دیگر زبانوں میں سنا اور پڑھا جاسکتا ہے۔

ایف بی ایف کی تاریخ میں پہلی بار شرکا کو دونوں آپشن دیے گئے، یعنی چاہیں تو وہاں جاکر شرکت کی جائے یا پھر ورچؤل طریقے سے۔ کینیڈا کے گورنر جنرل نے کینیڈین ناشروں، مصنفوں، خاکہ نگاروں، اداکاروں اور فنکاروں کے ایک کثیر وفد کی سربراہی کی جبکہ 380 سے زائد کینیڈین مصنفین کی تصانیف اور کینیڈا سے متعلق لکھی گئی کتابوں کی رونمائی کی گئی۔ کیوبیک اور سیسکچوین سے تعلق رکھنے والے شعرا اور لکھاریوں نے فرسٹ نیشنز آف کینیڈا کی خوب نمائندگی بھی کی۔

جرمن حکومت کے Neustart Kultur پروگرام کے تعاون سے حاضرین کے سامنے براہِ راست اوپن بُکس نامی ملک گیر مطالعاتی میلہ منعقد کیا گیا۔ مختلف ممالک کے ناشرین نے اپنی تازہ ترین افسانوی و غیر افسانوی تصانیف کو پیش کیا جبکہ اوپن بکس کڈز میں بچوں کی تازہ اور نئی کتابیں متعارف کروائی گئیں۔

البتہ یہ میلہ تنازع سے محفوظ نہ رہ سکا کیونکہ 4 لکھاریوں نے انتہائی دائیں بازو کے ناشرین کی موجودگی کے باعث میلے کو خود سے محروم کردیا۔ جرمن لکھاری اور سرگرم کارکن جسمینا کوہنک کو اپنے پہلے ناول بلیک ہارٹ کی تشہیر کرنا تھی لیکن جب انہیں پتا چلا کہ کتاب میلے میں انتہائی دائیں بازو کی کتابوں کی تشہیر کی جا رہی ہے تب انہوں نے اپنی شرکت منسوخ کردی۔ ان کی عدم شرکت کا سن کر مزید 3 مصنفین نے بھی شرکت سے انکار کردیا اور فرینک فرٹ میں قائم این فرینک ایجوکیشنل سینٹر نامی سیاسی تعلیم کی ایک تنظیم نے بھی کوہنک سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

ایف بی ایف کے ڈائریکٹر یورگین بوس سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ 'جب تک کوئی بنیادی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتا تب تک ہم سیاسی طور پر شدید نظریات رکھنے والے شرکا کو روکنے کے مجاز نہیں ہیں۔ مجھے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ سارے خود پر ہی ضرورت سے زیادہ توجہ دیے ہوئے ہیں۔ جب میں نے میلے کے شیڈول یا پروگرام کی فہرست کا جائزہ لیا تب مجھے کہیں بھی ایسا کوئی شخص نہیں ٹکرایا جو ایسے کسے پس منظر سے تعلق رکھتا ہو'۔

پڑھیے: مطالعے کا زمانہ واپس لانا ہوگا

Frankfurter Buchmesse اور جرمن انجمن برائے ناشرین و کتب فروشین نے اپنے جاری کردہ مشترکہ بیان میں لکھاریوں کی منسوخی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مصنفین کی وہ آوازیں جو نسل پرستی کے خلاف بولتیں اور تکثریت کی حمایت کرتی ہیں، اور جنہوں نے میلے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کی کمی محسوس کی جائے گی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ 'ہمارے نزدیک اظہار اور اشاعت کی آزادی کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ ہماری جمہوریت میں آزادانہ خیالات کے تبادلے اور کتاب میلے کے انعقاد کی یہی تو بنیادیں ہیں'۔

چند سال قبل اس کتاب میلے کا اعزازی مہمان بھارت تھا اور اس نے نہ صرف ایف بی ایف بلکہ پورے جرمنی میں اپنے اعلیٰ پائے کے مصنفین (ماسوائے اروندھتی رائے کے!) اور اپنے مطالعاتی میلوں، موسیقی، رقص، تھیٹر، فلم اسکریننگ اور مختلف نمائشوں کے پروگرام منعقد کرکے اپنا گہرا تاثر چھوڑا۔

اس سال میں نے بھی کتاب میلے میں شرکت کی تھی اور پوری شدت سے یہ محسوس کیا کہ مستقبل میں پاکستان کو اعزازی مہمان ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے جب میں نے ایف بی ایف حکام سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اگر پاکستانی حکومت لکھاریوں، خاکہ نگاروں، ڈیزائنروں، شعرا، ناشروں، فنکاروں اور اداکاروں کو بھیجنے اور ثقافتی اور ادبی پروگرامات کے انعقاد کی پیش کش کرتا ہے تو ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے۔

ہمارے کئی مدرسین، شعرا اور لکھاری جرمنی میں مقیم ہیں جو اس حوالے سے ہماری معاونت کرسکتے ہیں اور ہماری حکومت اور جرمنی میں تعینات ہمارے سفیر کو یہ سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے میلے کے منتظمین سے رجوع کرنا چاہیے۔ ایف بی ایف کا اعزازی مہمان بننے سے ہمیں اپنے ادب، سماج اور ثقافت کو عالمی پیمانے پر اجاگر کرنے اور پاکستان کی اعلیٰ ساکھ کو فروغ دینے کا زبردست موقع ملے گا۔

اس مقصد کے لیے ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ میں حکومتِ پاکستان کی تعاون یافتہ علامہ اقبال پروفیشنل فیلو شپ کی صورت میں پہلے ہی وہاں ایک مرکز قائم ہے۔ پاکستان کو اپنے خصوصی تعلقات کا بھرپور انداز میں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اقبال اپنی پی ایچ ڈی مقالے کے لیے ہائیڈل برگ میں 6 ماہ تک مقیم رہے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک نظم 'ایک شام دریائے نیکر ہائیڈل برگ کے کنارے' وہیں لکھی تھیں۔ وہاں ایک سڑک ان کے نام سے منسوب ہے اور ان کی نظم کو جرمن زبان میں ایک کتبے پر لکھ کر شہر کے ایک پارک میں نصب کیا گیا ہے۔ ادبی اور علمی مرکز ہونے کے ناطے ہائیڈل برگ نے اقبال کو بہت ہی زیادہ متاثر کیا اور انہوں نے اپنے خط میں اس شہر میں اپنے قیام کو 'ایک خوبصورت خواب' سے تعبیر کیا تھا۔

پڑھیے: جرمنی میں اقبال کی تلاش

جرمنی سے ہمارے دوسرے مضبوط تعلق کا سبب عظیم جرمن مستشرق دانشور آنہ ماری شیمل ہیں جن کے نام سے لاہور کی ایک سڑک منسوب ہے۔

بدقسمتی سے جہاں بھارت، بنگلہ دیش اور کئی دیگر ممالک کی حکومتوں نے ایف بی ایف 2021ء میں اپنے ناشروں اور لکھاریوں کو فروغ دینے کے لیے بڑے بڑے قومی اسٹینڈ قائم کیے تھے وہیں پاکستان اپنی غیر موجودگی کے باعث نمایاں رہا۔

یقیناً اعزازی مہمان بننا آسان نہیں اور اس کے لیے کم از کم 50 مصنفین کو بھیجنا پڑتا ہے اور کتاب میلے کے دوران اور اس کے بعد بھی سیکڑوں ثقافتی پروگرامات منعقد کرنے ہوتے ہیں لیکن حکومت کم از کم میلے میں قومی اسٹینڈ تو قائم کرسکتی تھی۔ فرینک فرٹ بین الاقوامی تعلقات بڑھانے اور ہمارے ورثے کے فروغ کے لیے ایک قوی پلیٹ فارم ہے اس لیے ہر سال وہاں پاکستان کی بھرپور انداز میں موجودگی بہت ہی اہمیت رکھتی ہے۔

ماضی میں جب کبھی بھی بولونیا بچوں کا کتاب میلہ، لندن کتاب میلہ، پیرس کتاب میلہ، شارجہ اور ابوظہبی کتاب میلوں کا رخ کیا تو پاکستان کو باضابطہ طور پر غیر موجود پایا اور آزادانہ حیثیت میں آنے والا کوئی ایک آدھ ہی ناشر دیکھنے کو ملتا۔ 2012ء میں شارجہ کتاب میلے میں پہلی اور آخری بار میں نے پاکستان کی موجودگی کو بہتر انداز میں محسوس کیا کہ جب خوش قسمتی سے پاکستان کو اعزازی ملک کا شرف بخشا گیا اور شارجہ بک اتھارٹی نے ہمارے ناشرین کو اپنا تعاون پیش کیا تھا۔

بین الاقوامی کتاب میلے ثقافتی سفارت کے لیے بہترین پلیٹ فارم ثابت ہوسکتے ہیں اور ہمیں ان میں بھرپور انداز میں شرکت کرنی چاہیے اور لوگوں کی دلچسپی کا باعث بننے والے ہمارے بہت سے ادبی، سماجی و ثقافتی پہلوؤں کو اجاگر کرنے والے کثیرالاقسام پرگروامات منعقد کرنے چاہئیں۔

ہمیں اپنے متنوع اور باصلاحیت لکھاریوں، اداکاروں اور فنکاروں کے ذریعے دنیا کو مضبوط پیغام دینے اور بین الاقوامی کتاب میلوں میں دنیا بھر سے شرکت کرنے والے بہت سارے خواندہ اور بااثر خواتین و حضرات پر اپنے قیمتی ادبی اور ثقافتی ورثے کو اجاگر کرنے کے لیے پُرکشش پروگرامات کا انعقاد کرنا ہوگا۔


یہ مضمون 28 نومبر 2021ء کو ڈان، بکس اینڈ آتھرس میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں