لکھاری ممبئی میں مقیم وکیل اور مصنف ہیں۔
لکھاری ممبئی میں مقیم وکیل اور مصنف ہیں۔

7 دسمبر کو امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ورچوئل ملاقات ہونا خوش آئند بات ہے۔ تاہم معاملات کو معمول پر لانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔

اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات 1999ء میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے پست ترین سطح پر ہیں۔ یہ دونوں حکمران بالمشافہ ملاقات کے بھی آرزو مند ہیں لیکن اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ ان دونوں کے درمیان موجود عدم اعتماد 2 گھنٹے کی ورچوئل ملاقات یا کسی بالمشافہ ملاقات سے دُور ہوجائے گا۔

اس کی اصل وجہ امریکا کا سرد جنگ میں اپنی فتح کا احساس اور امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کی روسی رہنما میخال گوربا چوف کے ساتھ کی گئی بدعہدی ہے۔ انہوں نے جرمنی سے اتحاد قائم کرنے کی ہامی بھری تھی، چاہے جرمنی نیٹو کا ممبر برقرار کیوں نہ رہے، لیکن بس ایک شرط رکھی تھی کہ نیٹو اتحاد مشرق کی جانب پیش قدمی نہیں کرے گا۔ لیکن ایسا ہوا۔

مزید پڑھیے: زوالِ سوویت یونین

2009ء میں روس کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات رکھنے والے یورپی ممالک کے اشارے پر یورپی یونین نے ایسٹرن پارٹنر شپ کا آغاز کیا۔ اس کے جواب میں روس نے یوریشین اکنامک یونین کا خیال پیش کیا جس میں یوکرین کا مرکزی کردار ہونا تھا۔ یہ روس کی جانب سے ایک اسٹریٹجک قدم تھا کیونکہ وہ سابقہ سوویت ریاستوں اور خاص طور سے یوکرین کو یورپی یونین کی چنگل میں جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس کی وجہ یوکرین کا یورپی یونین اور روس دونوں کے قریب واقع ہونا تھا۔

23 فروری 2014ء کو یوکرین میں حکومت تبدیل ہونے سے روس میں ہلچل مچ گئی۔ اس سے کچھ ہی روز قبل یوکرینی صدر نے دارالحکومت کیف میں کئی مہینوں سے جاری پُرتشدد مظاہرے روکنے کے لیے حزبِ اختلاف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے میں انہوں نے قبل از وقت انتخابات اور پارلیمانی نظام کی بحالی کی ہامی بھری تھی۔ یہ معاہدہ یورپی یونین کی ثالثی میں اور روسی نمائندوں کی موجودگی میں طے ہوا تھا۔ یہ وہی صدر تھے جنہوں نے یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔

لیکن 22 فروری کو روس نواز صدر ملک سے فرار ہوگئے اور ان کی جگہ ایک نگران صدر نے لے لی۔ اس کے بعد غصے میں بھرے روس نے یوکرین پر حملہ کرکے کریمیا پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت نام نہاد مِنسک معاہدہ بھی امن کے قیام میں ناکام رہا۔ اب ایک بار پھر اس علاقے میں روس کی غیر معمولی عسکری سرگرمیوں سے کسی بڑے حملے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ مبیّنہ طور پر اس حوالے سے امریکی صدر نے بھی روس کو معاشی پابندیوں کی دھمکی دی ہے۔

کونسل آن فارن ریلیشنز کے صدر رچرڈ ہاس نے ممبئی میں مجھے بتایا کہ نیٹو کی توسیع کے حوالے سے کوئی خاص بات نہیں ہورہی۔ نیٹو میں چیک ری پبلک، پالینڈ، ہنگری، بلغاریہ، استونیا، لتھوینیا، رومانیا، سلواکیہ، سلوینیا، البانیا اور کروشیہ بھی شامل ہوچکے ہیں۔ یورپی یونین کی فہرست اس سے مختصر ہے۔

مزید پڑھیے: امریکا اور روس، یوکرین کے معاملے پر سخت تنازع سے بچنے کے لیے پرعزم

تو اس سب شور شرابے سے ان ممالک کو کیا حاصل ہوگا؟ 1949ء میں منظور ہونے والے نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی کے آرٹیکل 5 کے مطابق ’تمام فریق اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ یا شمالی امریکا میں ان میں سے کسی بھی ملک پر ہونے والا حملہ تمام ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ ممالک اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ایسے کسی بھی حملے کی صورت میں تمام فریق اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق اپنے انفرادی اور مشترکہ حقِ دفاع کو استعمال کرتے ہوئے اس ملک کی مدد کریں گے جس پر حملہ ہوا ہوگا۔ اس ضمن میں شمالی بحر اوقیانوس کے علاقے میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے مسلح افواج کے استعمال سمیت ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

’ایسے کسی بھی حملے اور اس کے جواب میں اٹھائے گئے تمام اقدامات سے سیکیورٹی کونسل کو فوری آگاہ کیا جائے گا۔ یہ اقدامات اس وقت روک دیے جائیں گے جب سیکیورٹی کونسل کی جانب سے عالمی امن و سلامتی کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات کرلیے جائیں گے‘۔

سینیٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی میں اس معاہدے پر ہونے والے اجلاس میں اس وقت کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈین ایچیسن اس بارے میں واضح تھے کہ آرٹیکل 5 کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکا جارحیت کا شکار ملک کی مدد کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو امریکا بھی جنگ میں شامل ہوجائے گا۔ آرٹیکل 5 کے تحت حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ شمالی بحر اوقیانوس میں امن و سلامتی کی بحالی کے ضروری اقدامات اٹھائے۔

’ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ آئینی طریقہ کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔ فیصلے کے لیے جن عوامل کو پرکھا جائے گا ان میں حملے کی شدت اور اس کی نوعیت کے ساتھ ساتھ شمالی بحر اوقیانوس میں سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات شامل ہوں گے‘۔

مزید پڑھیے: تائیوان بحران: مغربی طاقتوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا

اس دوران ایک رکن نے ڈین ایچیسن سے پوچھا کہ ’کیا اس معاہدے میں کوئی ایسی چیز موجود ہے جو کسی بھی صورت میں امریکا کو جنگ کا لازمی حصہ بنادے گی؟‘

اس پر ڈین ایچیسن نے جواب دیا کہ ’نہیں سینیٹر، اس معاہدے میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے؟‘

یہ بات واضح ہے کہ اس معاہدے کے تعلق سے امریکا کا عہد قابلِ اعتبار نہیں ہوگا۔


یہ مضمون 11 دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں