زبانی حکم پر ملازم کو نوکری سے برطرف کرنا ’غیر قانونی‘ ہے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 26 دسمبر 2021
حکم نامے میں وضاحت کی گئی ہے کہ ملازمت سے برطرفی کے حوالے سے علیحدہ طریقہ کار موجود ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
حکم نامے میں وضاحت کی گئی ہے کہ ملازمت سے برطرفی کے حوالے سے علیحدہ طریقہ کار موجود ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا ہے کہ کسی بھی ملازم کو آجر کی جانب سے برطرفی کی واضح وجوہات پر مشتمل تحریری حکم کے بغیر صرف زبانی حکم پر برطرف نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر کی جانب سے لکھے گئے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ لیبر قوانین یا سروس قوانین کے میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جس کے تحت آجر کو تحریری حکم کے بغیر زبانی طور پر یا ’واضح وجوہات یا بدانتظامی کی وجہ سے ہونے والی تادیبی کارروائی‘ پر مشتمل تحریری حکم کے بغیر ملازم کو برطرف کرنے کی اجازت ہو۔

حکم نامے میں وضاحت کی گئی ہے کہ ملازمت سے برطرفی کے حوالے سے علیحدہ طریقہ کار موجود ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ زبانی حکم کے ذریعے ملازمت سے برطرفی لیبر اور سروس قوانین کے خلاف ہے اور گڈ گورننس کے اصول کے بھی خلاف ہے جو یہ جانچنے کا عمل ہے کہ آیا حکومت، اس کے محکمے/ادارے اور حکام اپنے معاملات کو قانونی طریقے سے چلا رہے ہیں اور اپنے فرائض ایمانداری، دیانتداری اور شفافیت کے ساتھ ادا کررہے ہیں، ان فرائض میں قواعد و ضوابط کے مطابق فیصلہ کرنے کا عمل بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے 16 ہزار برطرف ملازمین کو بحال کردیا

یہ فیصلہ فیڈرل سروس ٹربیونل (ایف ایس ٹی) کے 2 ستمبر 2020 کے حکم کے خلاف ایک اپیل پر آیا جس میں ایگریکلچر پالیسی انسٹی ٹیوٹ (اے پی آئی) کو ہدایت کی گئی تھی کہ 'زبانی برطرفی کے حکم' کو واپس لے کر ذوالقرنین علی کو ڈرائیور کے طور پر بحال کیا جائے۔

اس معاملے پر سماعت کرنے والے بینچ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

ڈرائیور ذوالقرنین علی کو اپریل 2011 میں 89 روز کے لیے دیہاڑی پر اے پی آئی میں ملازمت پر رکھا گیا اور اس کے معاہدے میں کئی مرتبہ توسیع ہوتی گئی۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ 31 مئی 2012 کو مختلف محکموں میں کام کرنے والے دیہاڑی دار ملازمین کے حوالے سے کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ان ملازمین کو مستقل کرنے کا فیصلہ ہوا، اس فیصلے کے تحت دیگر اداروں سمیت اے پی آئی کے 7 ملازمین بھی مستقل ہوئے جن میں ذوالقرنین بھی شامل تھا۔

نوکری سے برخاست کیے جانے پر ذوالقرنین نے ایف ایس ٹی سے رابطہ کیا جہاں یہ بات سامنے آئی کہ اسے زبانی احکامات پر جولائی 2012 میں برطرف کیا گیا۔

ڈرائیور نے ابتدائی طور پر 31 جولائی 2012 کو محکمانہ اپیل دائر کی جسے اے پی آئی نے 4 جنوری 2019 کو مسترد کر دیا۔ آخری حل کے طور پر، ڈرائیور نے ایف ایس ٹی سے رابطہ کیا۔

جسٹس علی مظہر کے مطابق برطرفی کا زبانی حکم ’غیر قانونی‘ تھا جس وجہ سے ڈرائیور کو اس کی نوکری پر بحال کرنے کا ایف ایس ٹی کا فیصلہ درست ہے۔


یہ خبر 26 دسمبر 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں