ایف آئی اے کی کارروائی کے باوجود ڈالر کی اڑان جاری

اپ ڈیٹ 27 دسمبر 2021
ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے کہا کہ 10 ہزار سے زائد ٹرانزیکشنز کی جانچ پڑتال کی گئی ہے — فائل فوٹو: اے پی پی
ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے کہا کہ 10 ہزار سے زائد ٹرانزیکشنز کی جانچ پڑتال کی گئی ہے — فائل فوٹو: اے پی پی

وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) غیر قانونی کرنسی کے کاروبار کے خلاف ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے، لیکن اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 181.3 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے باعث شرح تبادلہ پر دباؤ برقرار ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ثنااللہ عباسی نے ڈان کو بتایا کہ صرف دسمبر کے دوران ایجنسی نے 158 افراد کو گرفتار کیا اور ملک بھر میں 30 کروڑ روپے کی مقامی اور غیر ملکی کرنسی ضبط کی تاکہ روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ غیر قانونی کرنسی کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن اس خدشے کے باعث کیا گیا کہ ڈالر کو ذخیرہ کر کے ملک سے باہر اسمگل کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے انٹیلی جنس ایجنسیوں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور اس کی اپنی ٹیموں کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات پر کارروائی کی۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کی کارروائی، آن لائن فراڈ میں ملوث 3 نائجیرین شہری گرفتار

انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ دونوں میں روپے کے مقابلے ڈالر کی قیمت میں اضافے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایجنسی صرف بلیک مارکیٹ سے نمٹتی ہے۔

انہوں نے محتاط انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’جزوی اور کُلی معاشیات اور دوسرے قومی اور بین الاقوامی متغیرات ہیں جن کے ذریعے کسی بھی کرنسی کی قدر میں اضافے اور کمی سے نمٹا جاتا ہے اور یہ کام حکومت اور خاص طور پر مرکزی بینک اور وزارت خزانہ کرتی ہے‘۔

ثنااللہ عباسی نے بتایا کہ ایف آئی اے کی مہم کو دو مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلا مرحلہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے فوراً بعد 25 اگست سے شروع ہوا اور 30 نومبر تک جاری رہا۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس مرحلے میں ایف آئی اے نے 92 ایف آئی آر درج کیں، 40 انکوائریاں کی گئیں، 107 افراد کو گرفتار کیا گیا، 21 دکانیں سیل کی گئیں اور 36 کروڑ 50 لاکھ روپے برآمد کیے جن میں 15 کروڑ 60 لاکھ روپے کی غیر ملکی کرنسی بھی شامل ہے‘۔

دوسرے مرحلے میں، جو یکم دسمبر کو شروع ہوا اور اب تک جاری ہے، ایف آئی اے نے 117 ایف آئی آر درج کیں، 32 انکوائریاں کی، 158 افراد کو گرفتار کیا، 9 دکانیں سیل کی گئیں اور 8 کروڑ 80 لاکھ روپے کی غیر ملکی کرنسی سمیت 30 کروڑ روپے ضبط کیے۔

ایف آئی اے کے سربراہ نے بتایا کہ رواں سال کے دوران ضبط کی گئی کُل رقم ایک ارب 30 کروڑ روپے رہی۔

مزید پڑھیں: اختیارات کا 'بے جا استعمال': عدالت کی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم کی سرزنش

ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے کہا کہ 10 ہزار سے زائد ٹرانزیکشنز کی جانچ پڑتال کی گئی ہے جبکہ وفاقی حکومت نے ایف آئی اے سے کہا ہے کہ وہ فارن ایکسچینج کمپنیوں کے آپریشنز کو دیکھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے ایکسچینج کمپنیوں کی خرید و فروخت کے ریکارڈ کا معائنہ کیا اور 5 ’اے‘ کیٹیگری اور 29 ’بی‘ کیٹیگری کی فاریکس کمپنیوں کی جانچ پڑتال کی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کمپنیوں کے ذریعے کرنسیوں کی خرید و فروخت کی 10 ہزار سے زائد ٹرانزیکشنز کی جانچ پڑتال کی گئی، جس میں کچھ بے ضابطگیوں سامنے آنے پر 7 مقدمات درج کیے گئے اور کیٹیگری ’بی‘ کی فاریکس فرمز کے خلاف 11 انکوائریاں کی گئیں۔

رواں سال کے دوران ایف آئی اے نے مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹس (ایس ٹی آر) کے ذریعے مذکورہ کمپنیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد بڑی تعداد میں مشکوک ٹرانزیکشنز کی چھان بین کی۔

ان کثیرالجہتی پیچیدہ مالیاتی ٹرانزیکشنز کی انکوائریوں کے بعد 156 مقدمات درج کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: غیرقانونی کرنسی کاروبار کے خلاف کریک ڈاؤن میں 15 ملزمان گرفتار

انہوں نے کہا کہ یکم جنوری سے اب تک 29 ایس ٹی آرز کو مزید کارروائی کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، قومی احتساب بیورو (نیب) اور انسداد منشیات فورس (اے این ایف) کے حوالے کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی کارروائی اب بھی جاری ہے کیونکہ روپے کے استحکام میں کردار ادا کرنا ادارے کی اولین ترجیح ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے حکومت اور اسٹیٹ بینک ایک صفحے پر نہیں ہیں، ظفر پراچہ

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ظفر پراچہ نے حکومت کی جانب سے سنجیدگی کو روپے کے استحکام سے جوڑتے ہوئے کہا کہ ’معیشت کے تمام اشارے بتاتے ہیں کہ ڈالر کی قدر زیادہ ہے، اس کی شرح تبادلہ 160 سے 165 روپے کے درمیان ہونی چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مجموعی طور پر اسٹیٹ بینک نے اچھے اقدامات کیے ہیں لیکن اس کے اثرات ڈالر کی قدر پر ظاہر نہیں ہو رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے حکومت کی طرف سے کبھی ایسی سنجیدگی نہیں دیکھی اور ایسا لگتا ہے جیسے حکومت اور اسٹیٹ بینک ایک صفحے پر نہیں ہیں‘۔

ظفر پراچہ نے کہا کہ مارکیٹ کا خیال ہے کہ حکومت روپے کی قدر میں کمی کو کنٹرول کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے، روپے کی قدر میں کمی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط میں سے ایک ہو سکتی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے کا منی لانڈرنگ، سائبر حملوں کے خلاف مؤثر تعاون کا عزم

ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ یقیناً ڈالر کی قدر زیادہ ہے لیکن ہم نے اس طرح کا بیان کسی اور سے نہیں سنا‘۔

ایف آئی اے کی کارروائی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’ایکسچینج کمپنیاں انٹر بینک ریٹ کا تعین نہیں کرتیں، انٹر بینک ریٹ میں اضافے کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں شرح بڑھ رہی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم لائسنس یافتہ ادارے ہیں جو مرکزی بینک کی جانب سے مقرر کردہ شرائط کی سختی سے تعمیل کرتے ہوئے کاروبار کر رہے ہیں اور یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے اراکین اور صارفین کو ایف آئی اے کی جانب سے بلایا جارہا ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں