انسداد ریپ قانون کے نفاذ کا جائزہ لینے کیلئے خصوصی کمیٹی تشکیل

اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2021
کمیٹی اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021 کے سیکشن 15 کے تحت تشکیل دی ہے — فائل فوٹو
کمیٹی اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021 کے سیکشن 15 کے تحت تشکیل دی ہے — فائل فوٹو

اسلام آباد: وزارت قانون و انصاف کی جانب سے نئے انسداد ریپ قانون کے تحت 40 رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

وزارت قانون نے یہ کمیٹی اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021 کے سیکشن 15 کے تحت تشکیل دی ہے۔

اس سیکشن کے مطابق وزارت قانون ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دے سکتی ہے، اس کمیٹی میں وہ افراد شامل ہوں گے جو مفاد عامہ اور اعزازی طور پر کام کرنے کے لیے موزوں ہوں۔

کمیٹی کی چیئرپرسن پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون بیرسٹر ملیکہ بخاری ہوں گی۔

یہ کمیٹی انسداد ریپ قانون پر مؤثر عمل درآمد کے حوالے سے کسی بھی وفاقی و صوبائی وزارت، ڈویژن آفس، ایجنسی اور اتھارٹی سے رابطہ کر سکتی ہے۔

کمیٹی کے پاس یہ اختیار بھی ہوگا کہ وہ کمیٹی کی ہدایات نظر انداز کرنے والے کسی بھی فرد کے خلاف انضباطی کارروائی کے لیے معاملہ متعلقہ ادارے کو بھیج دے۔

اس کمیٹی میں بیرسٹر ملیکہ بخاری کے علاوہ جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال، بیرسٹر عنبرین عباسی (وزارت قانون کی مشیر اور نمائندہ)، جے آر سلطان (وزارت قانون کے سیکشن آفسر)، آمنہ انوار صدیقی (کمیٹی کی سیکریٹری)، چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان اور کشمیر کے چیف سیکریٹریز کے نمائندگان بھی شامل ہوں گے۔

کمیٹی میں ڈی جی لیگل اینڈ جسٹس اتھارٹی، نادرا کا نمائندہ، ماریہ تیمور اور آمنہ بیگ (پولیس افسران)، فوزیہ وقار (سینیئر پالیسی اور جینڈر ایڈوائزر)، اینکر پرسنز ماریہ میمن، فریحہ ادریس اور علینہ شگری شامل ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں: کابینہ کمیٹی نے سخت سزاؤں کیلئے انسداد ریپ آرڈیننس کی منظوری دے دی

ان افراد کے علاوہ کمیٹی میں بیرسٹر احمد پنسوٹہ، بیرسٹر عنبرین قریشی، بیرسٹر تیمور ملک، بیرسٹر حماد رضا سلطان، شرافت علی چوہدری، جی ڈی پی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ویلری خان، ٹراما اسپیشلسٹ ڈاکٹر خدیجہ، ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید، ندا علی، ندا عثمان، ابوذر سلمان خان نیازی اور مہوش محب کاکاخیل بھی شامل ہیں۔

کمیٹی میں محمد علی نیکوکارا، بیرسٹر سیدہ جگنو کاظمی، لیگل ایڈ سوسائٹی کی ڈائریکٹر ملیحہ ضیا، پنجاب وومن پروٹیکشن اتھارٹی کی چیئرپرسن فاطمہ آصف، اراکن صوبائی اسمبلی سدرہ عمران اور سمیرا شمس، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد، راما شاہد چیمہ اور فرانزک ماہر ڈاکٹر عائشہ سرور بھی شامل ہیں۔

یہ خصوصی کمیٹی وقتاً فوقتاً نادرا کو جنسی مجرموں کا ایک ریکارڈ تیار کرنے کے لیے مناسب ہدایات بھی جاری کرسکتی ہے جس کی تفصیلات صرف عدالت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کی جائیں گی۔

23 دسمبر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے سیکریٹری داخلہ اور پولیس سربراہان کو ہدایت کی تھی کہ وہ نئے انسداد ریپ قانون کے نفاذ کے حوالے سے اعداد و شمار کے ساتھ کمیٹی کے سامنے پیش ہوں۔

مزید پڑھیں: ریپ کیسز کی سماعت کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کا بل منظور

سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر نے کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انسداد ریپ قانون کی منظوری کی حکومتی کوششوں کی تعریف کی تھی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ماضی میں بنیادی اعتراض اس کے نفاذ کے حوالے سے تھا۔

حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021 میں زیادتی کے مقدمات کی تفتیش اور ٹرائل کے لیے جدید آلات کے استعمال اور خصوصی عدالتوں کے قیام کی بات کی گئی ہے۔

اس قانون کے تحت قانون کے تحت صدر پاکستان، چیف جسٹس کی مشاورت سے ملک بھر میں خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا حکم دیں گے اور کسی بھی ایسے شخص کو خصوصی عدالت کا جج مقرر کیا جاسکے گا جو کم از کم 10 سال تک سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج یا ایڈووکیٹ ہو یا رہ چکا ہو اور تقرر کے وقت اس کی عمر 70 سال سے زیادہ نہ ہو۔


یہ خبر 29 دسمبر 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں