کابینہ کمیٹی نے سخت سزاؤں کیلئے انسداد ریپ آرڈیننس کی منظوری دے دی

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2020
کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کا اجلاس وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم کی زیر صدارت ہوا — فائل فوٹو: آئی این پی
کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کا اجلاس وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم کی زیر صدارت ہوا — فائل فوٹو: آئی این پی

کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی نے انسداد ریپ سے متعلق اینٹی ریپ (انویسٹگیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020 اور پاکستان پینل کوڈ (ترمیمی) آرڈیننس 2020 منظور کرلیے۔

وزارت قانون سے جاری بیان کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کا اجلاس وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم کی زیر صدارت ہوا جس میں 2 آرڈیننسز کی منظوری دی گئی، جو آئین پاکستان اور بین الاقوامی چارٹرز کے عین مطابق ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ 'دنیا جہاں صنف پر مبنی تشدد کے خلاف '16 ڈیز آف ایکٹیوزم' منارہی ہے، وہیں پاکستان میں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی زیر قیادت حکومت ریپ کے خلاف تاریخی قانون سازی کرنے کے لیے تیار ہے'۔

کمیٹی کی جانب سے منظور کیے گئے اینٹی ریپ (انویسٹگیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020 کے نمایاں خدوخال مندرجہ ذیل ہیں:

  • خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔

  • کمشنر، ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں انسداد ریپ سیلز قائم کیے جائیں گے۔

  • انسداد ریپ سیل واقعے کی فوری ایف آئی آر اور تحقیقات کو یقینی بنائے گا۔

  • متاثرہ افراد کے طبی معائنے کے مروجہ غیر انسانی طریقہ کار کو ختم کیا جائے گا۔

  • مجرموں کو کیمیائی عمل سے نامرد بنانے کا طریقہ کار بھی وضع کیا جائے گا۔

  • مقدمات کا ان کیمرہ ٹرائل ہوگا۔

  • تحقیقات میں جدید آلات کا استعمال سمیت متاثرین کو قانونی معاونت دی جائے گی۔

  • نادرا جنسی جرائم میں ملوث افراد کا ڈیٹا مرتب کرے گا۔

  • خصوصی پراسیکیوٹر تعینات کیے جائیں گے۔

  • ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کی سربراہی میں جے آئی ٹی تحقیقات کرے گی۔

  • قوانین کے مکمل نافذ کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پینل کوڈ (ترمیمی) آرڈیننس 2020 کی بھی منظوری دی گئی جس کے اہم نکات یہ ہیں:

  • ریپ کی تعریف میں تبدیلی کی جائے گی۔

  • کسی بھی عمر کی خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی خواتین کے ریپ کے زمرے میں آئے گی۔

  • 18 سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی بچوں کے ساتھ ریپ کے زمرے میں آئے گی۔

  • مجرم کو نامرد بنانے کا فیصلہ بارہا جرم کرنے، بحالی ہونے یا نہ ہونے سمیت دیگر عوامل سے مشروط ہوگا۔

واضح رہے کہ ملک میں ریپ کے واقعات کی روک تھام کے لیے وفاقی کابینہ نے 2 انسداد ریپ آرڈیننسز کی اصولی منظوری دے دی تھی۔

24 نومبر کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا تھا کہ ملک میں خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات کی ایک لہر اٹھی ہے اور وفاقی کابینہ نے ریپ کے واقعات کی روک تھام پر غور کیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'ریپ کیسز کی سزا سے متعلق کابینہ نے قانون کی منظوری دی ہے'

بعد ازاں انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے خواتین اور بچوں کے ساتھ ریپ کے مجرموں کو جلد اور سخت سزائیں دلوانے سے متعلق قانون کے بارے میں کہا تھا کہ خصوصی عدالتوں کے قیام کے ساتھ مقررہ وقت میں ریپ کیس کا فیصلہ کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس نئے قانون کی رو سے متاثرہ اور گواہوں کو مکمل تحفظ بھی حاصل ہوگا۔

وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے آرڈیننس کو حکومت کی سنگ میل کامیابی قرار دیا تھا۔

اس معاملے پر ایک دوسرے وزیر کا کہنا تھا کہ کابینہ اراکین ریپسٹ کی سرعام پھانسی کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن کچھ نے اس کی مخالفت کی۔

مزید پڑھیں: ریپ میں ملوث افراد کو سرعام پھانسی یا نامرد کردینا چاہیے، وزیر اعظم

وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے مطالبہ کیا تھا کہ ریپسٹ کو سرِعام لٹکانا چاہیے تاہم وزیر قانون نے بتایا تھا کہ سرعام پھانسی جیسا کہ سپریم کورٹ نے بیان کیا کہ 'غیر اسلامی' اور 'غیر آئینی' ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں