آئی ایم ایف کے مطالبے پر سیلز ٹیکس 17 فیصد کیا، چیئرمین ایف بی آر

اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2021
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات کا تاریخی فیصلہ کیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات کا تاریخی فیصلہ کیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز

بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطالبے کی روشنی میں جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) 17 فیصد کردیا اور 343 ارب کا ٹیکس استثنیٰ ختم کردیا گیا ہے۔

چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں بتایا کہ آئی ایم ایف ایک حقیقت ہے۔

مزید پڑھیں: بچوں کے دودھ، خوردنی تیل سمیت دیگر اشیا پر 17فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے کہا کہ آمدن بڑھائیں، ماضی میں مفاد پرست عناصر نے ٹیکس مراعات لیں اور ماضی میں ٹیکس چھوٹ کو واپس نہیں لیا گیا اور آئی ایم ایف کے کہنے پر ہر بار نئے ٹیکس لگائے گئے۔

ڈاکٹر محمد اشفاق چھٹا جائزہ اجلاس 4 سے 19 اکتوبر کے دوران ہوا جہاں قانون کے مطابق دیے گئے استثنیٰ سمیت ہر چیز پر ہمارے تفصیلی مذاکرات ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو اعدادو شمار چاہئیں اور اس سے زیادہ وہ چاہتے ہیں کہ ٹیکس کے نظام سے خامیاں ختم ہوں، اسی لیے ان کا زور تھا کہ ٹیکس پالیسی ریفارمز کو فکس کیا جائے۔

آئی ایم ایف کی تجاویز پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا مطالبہ تقریباً 700 ارب تھا، جس میں ذاتی انکم ٹیکس میں اصلاحات بھی شامل ہیں لیکن فی الحال ہم نے ان کو جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) تک محدود رکھا۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ان کا یک نکاتی مطالبہ تھا کہ جی ایس ٹی 17 فیصد کردیں اور اگر کسی شعبے کو مراعات دینی ہو تو سبسڈی کے ذریعے مراعات دینے کی بات کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی روشنی میں 343 ارب کا استثنیٰ واپس لیا لیکن ہمارے دو شعبوں کو تحفظ دیا، جن میں پہلا غریب طبقے کو تحفظ دینا تھا اور دوسرا پیداواری شعبہ تھا کیونکہ ہم بڑھوتری کو روکنا نہیں چاہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اگر اسٹیٹ بینک ہاتھ سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو خودمختاری ختم کردیں گے، وزیر خزانہ

ان کا کہنا تھا کہ جب استثنیٰ ختم ہوتا ہے تو سرمائے پر اثر پڑتا ہے جبکہ آئی ایم ایف کا واضح اصول ہے کہ ٹیکس کا نظام صرف ٹیکس جمع کرے، ہم ٹیکس نظام پر بہت بوجھ ڈالتے ہیں کہ وہ سماجی کام بھی کرے، صنعتیں بھی چلائے تو یہ بڑا مشکل ہوتا ہے اور اس کے اندر ٹیکس نظام دب جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے یہی کہا کہ اپنے ٹیکس نظام کو صرف سرمایہ جمع کرنے کے لیے رکھیں اور جب سرمایہ جمع ہوجائے اور جب حکومت کے پاس مالی مواقع آتے ہیں وہ اپنی ترجیحات اور سیاسی منشور کے مطابق خرچ کرسکتی ہیں۔

ڈاکٹر اشفاق احمد نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات پاکستان کی تاریخ میں بہت اہم ہوئی ہیں اور یہ اسی مذاکرات کے نتیجے میں ہوئی ہیں اور ضمنی مالیاتی بل 2021 میں 5 قوانین میں تبدیلی کی ہے۔

منی بجٹ میں لگائے گئے ٹیکسز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی 17فیصد ہدف تھا جس پر وہ آنا چاہتے تھے لیکن ہم نے اس کے اندر استثنیٰ پھر نکال لیے ہیں، اس کا مقصد یہی تھا کہ غریب آدمی محفوظ رہے۔

انہوں نے کہا کہ جن شعبوں کو جی ایس ٹی سے بچایا ان میں خوراک کی اشیا گندم، چاول، سبزیاں، فروٹ، تازہ پولٹری اور گوشت، دودھ اور گنے کو جی ایس ٹی سے محفوظ رکھا ہے جو عام آدمی کی ضروریات ہیں۔

مزید پڑھیں: غریبوں کا روٹی، کپڑا اور مکان کا خواب کبھی پورا نہیں ہوا، وزیر خزانہ

ان کا کہنا تھا کہ سلیبس کی کتابیں، اسٹیشنری کی اشیا، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کی درآمدی اشیا، الیکٹرک گاڑیاں اور پلانٹس کے لیے درآمدی مشینری کو بھی جی ایس ٹی سے بچایا گیا ہے۔

چیئرمین ایف بی آر کاکہنا تھا کہ زراعت کے شعبے میں ٹریکٹرز، یوریا، کیڑے مار ادویات اور عام آدمی کے استعمال کی دیگر چیزوں کو بھی سیلز ٹیکس سےبچایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کے سلسلے میں ہم نے مجموعی طور پر 343 ارب کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرلیا ہے، اس میں 160 ارب صرف دوا ساز کمپنیاں ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ مشینری 112 ارب، 71 ارب کی مصنوعات میں کسی حد تک استثنیٰ واپس لیا گیا ہے اور عام آدمی پر 2 ارب روپے کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فارما سیکٹر میں بہت زیادہ ٹیکس چوری تھی، اب فارما سیکٹر کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نافذ کیا جائے گا اور درآمدی سطح پر سیلز ٹیکس لگایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ادویات پر زیرو ریٹنگ برقرار رکھی جائے گی، فارما سیکٹر کے ایکسپورٹرز کو ایک ہفتے میں ٹیکس ریفنڈز ادا کریں گے۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ٹیلی کام کے شعبے پر ٹیکسز کے حوالے سےکابینہ میں بحث ہوئی اور وفاقی کابینہ کے چند اراکین نے ٹیلی کام کے شعبے ٹیکس کی مخالفت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ بحث کے بعد کابینہ میں اعتراضات دور کردیے گئے اور اب ٹیلی کام کے شعبے پر ایڈوانس ٹیکس 10 سے بڑھا کر 15 فیصد کردیا گیا ہے۔

ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے ٹیکس بڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عام آدمی کے استعمال کی چند اشیا پر ٹیکس لگایا گیا ہے، عام آدمی کے کمپیوٹرز اور سلائی مشین پر ٹیکس لگایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماچس، نمک، مرچ اور مانع حمل ادویات پر بھی ٹیکس لگایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں ضمنی بجٹ پیش کیا تھا اور 343 ارب کے ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم ایوان سے ضمنی بل کی منظوری نہیں ہوئی اور اب اس پر بحث ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Jan 01, 2022 08:35am
جن اشیاء پر سیلز ٹیکس نہیں تھا۔ ان پر 17 % سیلز ٹیکس نافذ کر کے مہنگائی میں 17 % اضافہ کر دیا گیا۔ جس چیز کی قیمت فروخت سیلز ٹیکس نافذ ہونے سے پہلے 100 روپے تھی وہ اب 117 روپے ہو گئی ہے۔ بعد میں بجلی،گیس، پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے، ڈالر ایکسچینج ریٹ میں اظافہ ہونے سے، اور درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کر کے قیمت فروخت کو 200 روپے پر پہنچا کر 34 روپے سیلز ٹیکس وصول کیا جائے گا، جو حسب سابق طے شدہ ہدف سے زیادہ ہو گا۔