مالی جرائم کے کیسز: ایف آئی اے کے ایک اور سابق سربراہ تحقیقات کیلئے طلب

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2022
سعود مرزا پر الزام ہے کہ 14-2013 میں انہوں نے مفرور عمر فاروق ظہور کی گرفتاری سے بچنے میں مدد کی — فائل فوٹو
سعود مرزا پر الزام ہے کہ 14-2013 میں انہوں نے مفرور عمر فاروق ظہور کی گرفتاری سے بچنے میں مدد کی — فائل فوٹو

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے اپنے ایک اور سابق سربراہ سعود مرزا کو بیرون ملک فرار پاکستانی کے ساتھ منی لانڈرنگ اور مالی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات پر تحقیقات کے لیے منگل (آج) کو طلب کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن بھی مفرور شخص عمر فاروق ظہور، جو کہ ناروے، سوئٹزرلینڈ، ترکی اور پاکستان کو 10-2009 سے مختلف مالی اور دیگر جرائم میں مطلوب ہے، کی سہولت کاری کے الزام میں تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔

سعود مرزا کو جاری طلبی کے نوٹس میں ایجنسی نے کہا ہے کہ ایف آئی اے لاہور کی حالیہ تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ مشتبہ شخص کے خلاف مختلف ممالک میں منی لانڈرنگ کے جرائم کی تحقیقات کے بجائے ایف آئی اے کی جانب سے 14-2013 میں غیر قانونی طور پر اس کی سہولت کاری کی گئی جب سعود مرزا ڈائریکٹر جنرل تھے۔

مزید پڑھیں: مالیاتی جرائم کے ملزم کی ’سہولت کاری’ پر ایف آئی اے کے سابق سربراہ سے پوچھ گچھ

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سعود مرزا پر الزام ہے کہ 14-2013 میں انہوں نے مفرور عمر فاروق ظہور کی گرفتاری سے بچنے میں مدد کی، انہوں نے بطور ڈی جی ایف آئی اے اور سربراہ نیشنل سینٹرل بیورو (این سی بی) انٹرپول اسلام آباد ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور پولیس اور ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب کی درخواست پر ملزم کے خلاف جاری کیا گیا انٹرپول کا ریڈ وارنٹ منسوخ کرانے کے لیے غیر قانونی سہولت دیتے ہوئے رابطہ کیا اور سعود مرزا کی غیر قانونی درخواست کے جواب میں انٹرپول نے ملزم کے خلاف اپنا ریڈ وارنٹ منسوخ کردیا۔

ایف آئی اے کا مزید کہنا ہے کہ ’این سی بی انٹرپول اسلام اباد کے ریکارڈ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سعود مرزا نے بغیر کسی قابل قبول جواز کے دو اغوا شدہ بچیوں زینب عمر اور زنیرہ عمر، جن کو غیر قانونی طور پر بچیوں کی ماں خوش بخت مرزا کی قانونی تحویل سے لے کر جعلی سفری دستاویزات پر برون ملک منتقل کردیا گیا، کی تلاش اور وطن واپسی کے لیے جاری یلو نوٹس واپس لیا۔

ایف آئی اے نے سعود مرزا کو منگل (آج) کو تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہو کر جواب دینے کی ہدایت کی ہے کہ کیا انہوں نے پاکستان میں بالواسطہ یا بلاواسطہ لانڈر ہونے والے ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے مالیاتی جرم (سوئس بینک فراڈ کیس، زیورخ 2004) یا 8 کروڑ 90 لاکھ ناروجین کرونرز (نورڈیا بینک فراڈ، اوسلو 2010) کے مالیاتی جرم کی تحقیقات کی کوشش کی، جنہیں این سی بی کے انٹرپول برن اور اوسلو نے بھی اجاگر کیا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان نے ملاقات میں جسٹس قاضی فائز کا نام نہیں لیا، بشیر میمن

سعود مرزا کو جاری نوٹس میں پوچھا گیا ہے کہ آپ نے کیوں ایک عام شخص ظہور کی جانب سے دائر درخواست کو قبول کرتے ہوئے اس کے خلاف جاری ریڈ نوٹس کو منسوخ کرایا جو کہ آئین کے آرٹیکل 33 کی واضح خلاف ورزی ہے؟ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ظہور نے سندھ ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت کرا رکھی تھی، اس کی گرفتاری کے لیے جاری ریڈ نوٹس کو معطل کیا جاسکتا تھا تاکہ وہ پاکستان آکر اپنے خلاف کیسز کی تحقیقات کا سامنا کرے، کیا سندھ ہائی کورٹ کی حفاظتی ضمانت کی بنیاد پر ایک عالمی مطلوب شخص کا ریڈ وارنٹ منسوخ کرنا غیر قانونی سہولت نہیں تھی؟

نوٹس میں سعود مرزا سے سوال کیا گیا ہے کہ آپ نے بطور سربراہ این سی بی اسلام آباد اس حقیقت کے باوجود عمر فاروق ظہور کے خلاف جاری ریڈ نوٹس واپس کیوں لیا کہ اس وقت کے ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب نے واضح طور پر این سی بی انٹرپول اسلام آباد کو مطلع کیا تھا کہ ملزم ظہور ایف آئی اے لاہور کو مطلوب ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں