نیوزی لینڈ کے انکار کے بعد رپورٹر نے مدد کیلئے طالبان سے رجوع کرلیا

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2022
چارلوٹ بلیز نے گزشتہ سال طالبان رہنماؤں سے خواتین  کے ساتھ سلوک سے متعلق سوالات پوچھ کر عالمی توجہ حاصل کی تھی—فوٹو:شارلٹ بلیز ٹوئٹر
چارلوٹ بلیز نے گزشتہ سال طالبان رہنماؤں سے خواتین کے ساتھ سلوک سے متعلق سوالات پوچھ کر عالمی توجہ حاصل کی تھی—فوٹو:شارلٹ بلیز ٹوئٹر

نیوزی لینڈ کی حاملہ صحافی نے کہا ہے کہ ان کے اپنے ملک کی جانب سے کورونا وائرس کی پابندیوں کے باعث ان کو ملک واپس آنے سے روکنے کے بعد وہ افغانستان میں پھنسی ہوئی ہیں اور انہوں نے مدد کے لیے طالبان سے رجوع کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ ہیرالڈ میں شائع اپنے ایک مضمون میں شارلٹ بلیز کا کہنا ہے کہ یہ بہت ستم ظریفی ہے کہ کبھی وہ طالبان کے خواتین کے ساتھ سلوک کے بارے میں سوال اٹھاتی تھیں اور اب وہ اپنی حکومت کے خواتین کے ساتھ رویے کے بارے میں سوال اٹھا رہی ہیں۔

شارلٹ بلیز نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ جب طالبان ایک غیر شادہ شدہ، حاملہ خاتون کو محفوظ پناہ دیتے ہیں اس سے آپ کا مؤقف کمزور ہوتا ہے۔

نیوزی لینڈ کے کورونا وائرس ریسپانس کے وزیر کرس ہپکنز نے ہیرالڈ کو بتایا کہ انہوں نے حکام سے کہا ہے کہ کیا شارلٹ بلیز کے کیسز میں مناسب طریقہ کار پر عمل کیا ہے جسے ابتدائی طور پر دیکھنے سے لگتا ہے کہ معاملے کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں، طالبان

نیوزی لینڈ نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اچھے انتظامات کیے ہیں، 50 لاکھ کی آبادی کے ملک نیوزی لینڈ میں وبا کے دوران صرف 52 اموات ریکارڈ ہوئیں۔

تاہم قومی سطح پر پابندی ہے کہ ملک کے اپنے شہری بھی ملک واپسی پر افواج کے زیر انتظام قرنطینہ ہوٹلز میں 10 روز علیحدگی میں گزاریں گے جس کی وجہ سے وطن واپس آنے والے ہزاروں لوگ جگہ ملنے کے انتظار میں ہیں۔

بیرون ملک برے حالات میں پھنسے شہریوں کی کہانیاں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن اور ان کی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث ہے لیکن شارلٹ بلیز کی صورتحال خاص طور پر کافی الگ ہے۔

گزشتہ سال امریکی افواج کے انخلا کی کوریج کے لیے وہ الجزیرہ کے لیے کام کر رہی تھیں اور انہوں نے طالبان سے ان کے خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک سے متعلق سوالات پوچھ کر عالمی توجہ حاصل کی تھی۔

اپنے کالم میں انہوں نے کہا کہ جب وہ ستمبر میں قطر گئیں تو انہیں اپنے ساتھی کے ساتھ حاملہ ہونے کا معلوم ہوا جو نیویارک ٹائمز کے ساتھ کام کرنے والے ایک فری لانس فوٹوگرافر ہیں۔

انہوں نے اپنے حاملہ ہونے کو ایک معجزہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ڈاکٹرز کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ان کے بچے نہیں ہوسکتے، اب وہ مئی میں بچی کو جنم دیں گی۔

یہ بھی پڑھیں:خواتین سے متعلق کیے گئے وعدے ’توڑنے‘ پر اقوام متحدہ کے سربراہ کی طالبان پر تنقید

شارلٹ بلیز کا کہنا ہے کہ قطر میں بغیر شادی کے جنسی تعلقات غیر قانونی ہیں اس لیے انہوں نے سوچا کہ انہیں واپس جانا چاہیے، انہوں نے کئی مرتبہ نیوزی لینڈ کے قرعہ اندازی کے نظام کے تحت بھی وطن واپس جانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے نومبر میں الجزیرہ سے استعفیٰ دے دیا تھا اور وہ اپنے پارٹنر کے آبائی ملک بیلجیئم چلی گئی تھیں لیکن وہ وہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکیں کیونکہ وہ بیلجئم کی رہائشی نہیں تھیں، اس کے بعد ان دونوں کے پاس رہنے کے لیے واحد دوسری جگہ افغانستان تھی کیونکہ ان کے پاس صرف افغانستان کا ویزہ تھا۔

شارلٹ بلیز نے کہا کہ انہوں نے طالبان کے سینئر رہنما کے ساتھ بات کی جنہوں نے انہیں بتایا کہ وہ افغانستان میں آرام سے رہ سکتی ہیں۔

شارلٹ بلیز نے بتایا کہ انہیں طالبان نے کہا کہ آپ لوگوں کو بتادیں کہ آپ شادی شدہ ہیں اور اگر کوئی سنگین معاملہ ہو تو ہمیں آگاہ کریں اور پریشان نہ ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: خواتین امور کی معطل وزارت کی عمارت کے سامنے عملے کا احتجاج

انہوں نے کہا کہ میں نے افغانستان میں نیوزی لینڈ کے حکام کو 59 دستاویزات بھیجیں لیکن انہوں نے ہنگامی واپسی کے لیے ان کی درخواست مسترد کر دی۔

نیوزی لینڈ کے قرنطینہ سینٹر اور قرنطینہ نظام کے مشترکہ سربراہ کرس بنی نے ہیرالڈ کو بتایا کہ شارلٹ بلیز کی ہنگامی درخواست اس شرط کے تحت نہیں آتی جس کے مطابق وہ 14 دن کے اندر سفر کریں۔

انہوں نے کہا کہ حکام نے شارلٹ بلیز سے رابطہ کیا ہے اور ان سے مطلوبہ شرائط کے مطابق درخواست تیار کرنے کا کہا ہے۔

کرس بنی نے لکھا کہ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے اور نیوزی لینڈ کے مشکل میں پھنسے شہریوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی ٹیم کی ایک مثال ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں