آپ کو ٹی20 ورلڈ کپ 2016ء کا وہ میچ تو یاد ہوگا جس میں بنگلہ دیش بھارت کو شکست دینے کے بہت قریب پہنچ گیا تھا۔ آخری اوور میں 10 رنز درکار تھے اور مشفق الرحیم نے ہاردِک پانڈیا کو 2 مسلسل گیندوں پر چوکے رسید کردیے تھے۔

3 گیندوں پر 2 رنز درکار تھے اور مشفق کا اعتماد بلندیوں کو چُھو رہا تھا۔ یہاں ان کے ذہن میں فاتحانہ چھکا لگانے کا سودا سما گیا، اس کوشش میں وہ ڈیپ مڈ وکٹ پر کیچ دے گئے۔ اگلی ہی گیند پر محمود اللہ بھی کچھ ایسی ہی کوشش میں ناکام ہوئے اور آخری گیند پر مستفیض الرحمٰن کے رن آؤٹ نے بنگلہ دیش کو شکست دی اور ثابت کیا کہ ایک جیتا ہوا مقابلہ کیسے ہارا جاتا ہے۔ اس کی ایک اور مثال ہمیں کل لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے بھی دکھائی ہے۔

ہدف کے تعاقب میں 38 گیندوں پر صرف 44 رنز درکار تھے اور 6 وکٹیں بھی باقی تھیں۔ یہاں پر اگر اسلام آباد بھی ’دماغ سے‘ نہ کھیلے تو کسے الزام دیں؟ ایک سُندر سپنا کب ڈراؤنے خواب میں بدلا پتا ہی نہیں چلا یہاں تک کہ آخری اوور میں لاہور قلندز ناقابلِ یقین انداز میں جیت کر تاریخ میں دوسری مرتبہ پاکستان سپر لیگ کے فائنل تک پہنچ گئے۔

آخر معاملہ یہاں تک پہنچا کیسے؟ یہ ایک لمبی داستان ہے کیونکہ اس میچ کی کہانی میں کوئی ایک نہیں بلکہ کئی موڑ آئے۔ اتنے اتار چڑھاؤ تو ہمیں پاکستانی ڈراموں میں دیکھنے کو نہیں ملتے جتنے اس میچ میں تھے۔ بہرحال، اِس قسط کا لبِ لباب یہ تھا کہ لاہور 6 رنز سے جیت گیا۔


فخر نہیں تو کیا ہوا؟


اب تک یہی سمجھا جا رہا تھا کہ لاہور کو شکست دینے کا فارمولا سادہ سا ہے یعنی فخر زمان کو آؤٹ کرو اور لاہور کو قابو کرلو۔ اسلام آباد نے نہ صرف فخر کو پہلے اوور ہی میں آؤٹ کیا بلکہ ان کے ساتھ اوپنر آنے والے فل سالٹ کو بھی جلد ہی پویلین کا راستہ دکھا دیا۔

گویا میچ مٹھی میں آگیا تھا۔ لیکن یہاں نوجوان عبد اللہ شفیق اور کامران غلام نے ساجھے داری کی، جس نے لاہور کی کامیابی کی بنیاد رکھی۔ دونوں نے تیسری وکٹ پر صرف 42 گیندوں پر 73 رنز کا اضافہ کیا۔ انہی کی بدولت 10 اوورز میں مجموعہ 82 رنز کو چُھو گیا۔


ایک مایوس کُن مرحلہ


ابتدائی دھچکوں کے بعد لاہور کو بہترین بنیاد مل چکی تھی اور آنے والے تجربہ کار بلے باز اس کا بخوبی فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن محمد حفیظ اور ان کے ساتھی سمِت پٹیل ایسا نہیں کرسکے۔

لاہور 6 اوورز میں صرف 38 رنز کا اضافہ کر پایا۔ محمد حفیظ 19ویں اوور میں 28 گیندوں پر 28 رنز کی مایوس کُن اننگ کھیل کر آؤٹ ہوئے جبکہ سمِت نے 18 گیندوں پر 21 رنز بنائے۔


ٹرننگ پوائنٹ


جب لاہور کی اننگ کے 19 اوورز مکمل ہوئے تو اسکور بورڈ پر صرف 141 رنز موجود تھے اور شاہین آفریدی کے ساتھ کھڑے تھے ڈیوڈ ویزے۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور وقاص مقصود پر پل پڑے۔

پہلی 3 گیندوں میں سے 2 کو چھکے کے لیے روانہ کیا اور ایک پر فائن لیگ کی جانب چوکا حاصل کیا اور جاتے جاتے پانچویں گیند پر ایک اور زبردست چھکا بھی رسید کر گئے۔ ویزے نے وقاص کے اوور میں کُل27 رنز لوٹ کر سماں باندھ دیا۔

یہ لمحہ میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کیونکہ اسی کی بدولت لاہور اس مقام پر پہنچا، جہاں وہ کسی نہ کسی طرح اسلام آباد کو پچھاڑنے میں کامیاب ہوا۔ محمد حفیظ نے بھی 28 رنز بنائے لیکن اتنی ہی گیندیں بھی کھیلیں جبکہ ویزے نے بھی 28 رنز ہی اسکور کیے، لیکن صرف 8 گیندوں پر۔

یہ دن کے خوبصورت ترین لمحات میں سے ایک تھا۔ آخری اوور میں اسٹیڈیم میں موجود ہزاروں تماشائی 'ویزے کے نام کے نعرے لگا رہے تھے اور وہ ان کی ہر اپیل پر لبیک کہتے ہوئے بلند و بالا چھکے رسید کر رہے تھے۔


تُو شاہیں ہے!


اسلام آباد نے ہدف کے تعاقب میں آغاز بہت عمدگی سے کیا۔ پہلے ہی اوور میں پال اسٹرلنگ نے شاہین آفریدی کو چھکا اور چوکا رسید کرکے اپنے ارادے ظاہر کردیے تھے۔ لیکن شاہین اگلے اوور میں پوری منصوبہ بندی سے واپس آئے اور نہ صرف اسٹرلنگ بلکہ آنے والے بلے باز وِل جیکس کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔

پاور پلے کے خاتمے سے پہلے شاداب خان اور لیام ڈاسن کی وکٹیں بھی گئیں اور اسلام آباد مکمل طور پر پچھلے قدموں پر تھا۔ ڈاسن کی وکٹ تو مکمل طور پر کامران غلام کی تھی، جنہوں نے بہترین فیلڈنگ کرتے ہوئے انہیں رن آؤٹ کیا۔


کہانی میں دوسرا موڑ


اس مقام پر لاہور مکمل طور پر حاوی ہوچکا تھا لیکن کہانی میں آیا دوسرا موڑ! اعظم-ہیلز آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھاتے رہے اور گاہے چھکے اور چوکے بھی رسید کرتے رہے یہاں تک کہ 12ویں اوور کے اختتام تک وہ اسکور کو 107 رنز تک لے آئے۔

یہاں پر لانگ آف پر کھڑے شاہین آفریدی نے اعظم خان کا کیچ ڈراپ کیا اور زخموں پر نمک یہ کہ یہ چھکا بھی ہوگیا۔ اگلی ہی گیند پر حارث رؤف کی وائیڈ بال پر چوکا ہوگیا اور پھر زمان خان نے بھی ایک کیچ چھوڑ دیا۔ یعنی زخموں پر نمک کے ساتھ مرچیں بھی لگا دیں۔

اب اسلام آباد کو صرف خود اسلام آباد ہی روک سکتا تھا۔ اسے 38 گیندوں پر صرف 44 رنز کی ضرورت تھی اور لاہوریوں کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے۔ یہاں وہ مقام آیا جسے ہم اسلام آباد یونائیٹڈ کے زوال کا نقطہ آغاز کہہ سکتے ہیں یعنی اعظم خان کا رن آؤٹ!

حارث رؤف پہلے ہی 2 عمدہ کیچ پکڑ چکے تھے اور اب ان کا اگلا کارنامہ تھا ایک ڈائریکٹ تھرو، جس نے اعظم خان کو وکٹوں تک پہنچنے سے پہلے ہی جا لیا۔ یہ اعظم خان کا رواں سیزن میں تیسرا رن آؤٹ تھا جو وکٹوں کے درمیان ان کی دوڑنے کی کمزور صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔

بہرحال، جو کسر رہ گئی تھی وہ حارث کے اگلے اوور میں ایلکس ہیلز کے آؤٹ ہونے سے پوری ہوگئی۔ یوں 2 سیٹ بلے باز واپس ڈگ آؤٹ میں آچکے تھے۔ اعظم نے 28 گیندوں پر 40 رنز بنائے اور ہیلز نے 29 گیندوں پر 38۔


اور دماغ کی بتّی بجھ گئی


تب بھی اسلام آباد کو 29 گیندوں پر 39 رنز کی ضرورت تھی جو بالکل قابلِ حصول ہدف تھا۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ ان کے دماغ کی بتّی بجھ چکی ہے۔ حسن علی اور آصف علی باآسانی مقابلہ جتوا سکتے تھے، خاص طور پر جب شاہین کے آخری اوور میں 2 چوکوں کی مدد سے انہیں 13 رنز بھی مل چکے تھے۔ حسن علی کو نو-بال پر نئی زندگی بھی ملی لیکن انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ’دماغ سے‘ نہیں کھیلنا۔

پہلے حسن علی آؤٹ ہوئے اور اگلے اوور میں حارث رؤف کو ایک کرارا چھکا لگانے کے بعد آصف کے دماغ میں نجانے کیا آئی کہ ایک اور چھکے کے لیے چلے گئے۔ جب 7 گیندوں پر 8 رنز کی ضرورت تھی تو ایسا خطرہ مول لینے کی ضرورت ہرگز نہیں تھی۔ وہ بھی حارث جیسے خطرناک باؤلر کے خلاف۔

اس وقت شاہین آفریدی، حارث رؤف اور زمان خان تینوں کے اوورز تمام ہوچکے تھے اور آخری اوور لازماً ڈیوڈ ویزے ہی کو کروانا تھا۔

خیر، آصف نے حارث کی دن کی آخری گیند پر بھی بلّا گھمانے کا فیصلہ کیا اور نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ لانگ آن پر کیچ ہوا اور میچ ہاتھ سے یہ جا وہ جا! یہ منظر دیکھ کر نجانے کیوں مشفق الرحیم کی یاد آگئی۔


تابوت میں آخری کیل


آخری اوور میں اسلام آباد کو 8 رنز کی ضرورت تھی اور اس کی صرف 2 وکٹیں باقی تھیں۔ یہاں اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا فیصلہ بھی یونائیٹڈ نے خود ہی کیا۔

پہلی دونوں گیندوں پر محمد وسیم دستیاب رن نہیں دوڑے کیونکہ وہ میچ کو خود فنش کرنا چاہتے تھے۔ تیسری گیند پر بھی شاٹ نہ لگا تو بادل نخواستہ دوڑے لیکن ایک رن کے بجائے 2 رنز دوڑنے کا فیصلہ کیا، جو گویا ایک خودکشی تھی۔

رن آؤٹ ہوئے اور معاملہ آخری کھلاڑی تک آگیا، جس کے پاس اب واقعی کوئی راستہ نہیں تھا، سوائے اس کے کہ بلّا کو اندھا دھند گھمائے۔ وقاص مقصود نے پہلی ہی گیند پر یہ ’فریضہ‘ انجام دیا اور توقعات کے عین مطابق کیچ دے کر چلتے بنے۔

آخری 3 اوورز میں ہر اسلام آبادی بلے باز کی کوشش تھی کہ وہ فاتحانہ شاٹ لگائے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت بلند و بالا شاٹس لگانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

اسلام آباد کی اننگ میں 3 کھلاڑی رن آؤٹ بھی ہوئے، ایک لیام ڈاسن، دوسرے اعظم خان اور تیسرے آخر میں محمد وسیم اور تینوں بہت ہی نازک مراحل پر اپنی وکٹ دے گئے۔ لاہور نے ان مواقع کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور شکست کے جبڑوں سے فتح کھینچ لی۔


اب ہوگا مہا مقابلہ!


اس کے ساتھ ہی طے ہوگیا کہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل کون کھیلے گا یعنی ملتان سلطانز اور لاہور قلندرز، وہی ٹیمیں جو لیگ مرحلے کے بعد ٹاپ 2 پوزیشنز پر قابض تھیں اور کوالیفائر میں بھی آمنے سامنے آئی تھیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو ایسی ٹیمیں فائنل تک پہنچی ہیں جو واقعی فائنل کھیلنے کی حقدار تھیں۔

دفاعی چیمپئن ملتان سلطانز اب تک پورے سیزن میں صرف ایک میچ ہارا ہے، اور لاہور قلندرز ہی وہ واحد ٹیم رہی ہے جس نے ملتان کو ہرایا ہے۔ گوکہ کوالیفائر میں لاہور کو اسی ملتان سے شکست ہوئی تھی لیکن لگتا ہے 'پنجاب ڈربی' فائنل میں بہت سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں