دنیا کرکٹ کے کئی بڑے ناموں کو قیادت سونپی گئی، ڈیوین براوو، برینڈن میک کولم، اے بی ڈی ویلیئرز، محمد حفیظ اور فخر زمان۔ سیزن در سیزن ٹیم میں بڑی بڑی تبدیلیاں ہوتی رہیں لیکن لگتا تھا کہ لاہور نے ایسا کوئی ’دردِ لا دوا‘ پایا ہے کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں ان کے لیے کچھ نہیں۔ محاورے بن گئے کہ ’لاہور قلندرز کے پی ایس ایل جیتنے تک ادھار بند ہے‘۔ بلکہ فائنل میں بھی ایک تماشائی نے بینر اٹھایا ہوا تھا کہ

لاہور کی جیت کا نظارہ چاہتی ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتی ہوں!

لیکن 27 فروری کے دن میں ضرور کچھ ہے۔ یہ 'سرپرائز' کا دن ہے اور اس دن ہمیں ایک اور سرپرائز مل چکا ہے یعنی قلندرز چیمپئنز بن گئے ہیں!

وہ بھی اس ٹیم کے خلاف کہ جس کے سامنے لاہور اپنے آخری 5 میں سے 4 مقابلے ہارا تھا، اس ٹیم کے خلاف کہ جس نے پورے سیزن میں صرف ایک میچ میں شکست کھائی تھی۔ اسی ملتان سلطانز کے خلاف قلندرز نے کوئی چھوٹی موٹی نہیں، پورے 42 رنز سے کامیابی حاصل کی اور پہلی مرتبہ پی ایس ایل ٹائٹل جیت لیا۔


'پروفیسر'، زیرو سے ہیرو


لاہور کی اس کامیابی میں بنیادی کردار بھی اس کھلاڑی نے ادا کیا کہ جس پر ابھی 2 دن پہلے طنز و طعنوں کی بارش تھی۔ وہی محمد حفیظ کہ لاہور نے جب فائنل کے لیے اپنی ٹیم میں تبدیلی کی اور فل سالٹ کی جگہ ذیشان اشرف کو کھلایا تو کسی دل جلے نے کہا کہ فل سالٹ کو باہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، باہر تو محمد حفیظ کو کرنا چاہیے تھا۔ لوگ اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف ناک آؤٹ مقابلے میں ان کی 28 گیندوں پر 28 رنز کی مایوس کن اننگ بھولنے کو تیار نہیں تھے۔

‏'پروفیسر' حفیظ شاید ایسے تمام لوگوں کو جواب دینے کے موڈ میں تھے۔ جب فخر زمان مسلسل دوسرے مقابلے میں ناکام ہوئے اور لاہور کی 3 وکٹیں پاور پلے کے اندر ہی گر گئیں تو قلندروں کا تمام تر دار و مدار محمد حفیظ پر ہی تھا۔

محمد حفیظ نے مزید کسی وکٹ کے نقصان سے پہلے پہلے لاہور کو آدھی منزل تو پار کروا دی اور 10ویں اوور تک چوتھا نقصان نہیں پہنچا لیکن ان کی تمام تر کوششیں بھی اسکور کو 15 اوورز میں 103 رنز تک ہی لا پائیں۔ یہاں وقفہ ہوا، وہی اسٹریٹجک ٹائم آؤٹ کہ جو تقریباً ہر میچ کا رخ بدل دیتا ہے، کل اس نے لاہور کی قسمت بدل دی۔

ویسے حفیظ نہ صرف بلے بازی میں جوہر دکھانے میں کامیاب رہے بلکہ باؤلنگ میں بھی انہوں نے اپنے 4 اوورز میں صرف 23 رنز دیے اور 2 قیمتی وکٹیں حاصل کیں، اور میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے، یعنی ایک ہی دن میں زیرو سے ہیرو بن گئے۔


ٹرننگ پوائنٹ


لاہور کی اننگ کے آخری 5 اوورز نے میچ کا دھارا ہی پلٹ دیا۔ صرف 30 گیندوں پر قلندروں نے 77 رنز کا اضافہ کیا اور اسکور کو 103 سے 180 رنز تک پہنچا دیا۔

اس میں جہاں حفیظ کی 46 گیندوں پر 69 رنز کی اننگ کا کردار تھا وہیں ہیری بروک اور ڈیوڈ ویزے نے حتمی اور فیصلہ کن ضرب لگائی۔ ان دونوں نے صرف 16 گیندوں پر 43 رنز کی ناقابلِ شکست ساجھے داری کی۔ آخری 2 اوورز میں ہی انہوں نے 40 رنز کا اضافہ کیا۔ اس دوران قذافی اسٹیڈیم میں تماشائیوں کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔


ملتان بالآخر دباؤ میں


ملتان پورے سیزن میں بہت کم میچوں میں دباؤ میں نظر آیا بلکہ لاہور قلندرز ہی کے خلاف ایک میچ میں 207 رنز کے ہدف تک کا تعاقب کرلیا تھا لیکن کل قلندروں کے اکھاڑے میں سلطانوں کی دال گلتی نظر نہیں آرہی تھی۔ کیونکہ وہ حالات بھی مختلف تھے اور مقابلہ بھی۔

یہ قذافی اسٹیڈیم تھا، یہاں مقابلہ 11 حریف کھلاڑیوں سے نہیں بلکہ ان کی حمایت کے لیے میدان میں آنے والے 27 ہزار تماشائیوں سے بھی تھا۔ شاید اسی لیے فائنل میں ملتان سلطانز کا وہ روپ نہیں دکھائی دیا جو ہم نے پورے سیزن میں دیکھا تھا۔

اوپنر شان مسعود کو کیچ چھوٹنے کی بدولت زندگی بھی ملی لیکن وہ اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے اور فخر زمان کے ایک دم نشانے پر لگنے والے تھرو کی بدولت رن آؤٹ ہوگئے۔ رائلی روسو کو مواقع ملے، کیچ کے ساتھ ان کا رن آؤٹ بھی بچا لیکن ان کے نصیب میں بھی ناکامی رہی۔ لاہوری ہر گزرتے اوور کے ساتھ مقابلے پر غالب آتے گئے اور ہر گرنے والی وکٹ پر باجوں اور نعروں کی گونج آسمان کو چیرتی رہی اور پھر سلطانز حوصلے ہار گئے۔


ٹی20 میں نائٹ واچ مین؟


ویسے تو لاہور ہی کی طرح پاور پلے میں بھی ملتان کی بھی 3 وکٹیں ہی گری تھیں، لیکن 181 رنز کے ہدف کی وجہ سے وہ ہڑبڑا گئے۔ سلطانز نے یہاں ایسے فیصلے کیے کہ جن کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ مثلاً آصف آفریدی کو کھیلنے کے لیے اوپر بھیجا، شاید 'نائٹ واچ مین' بناکر کہ وہ وکٹ بچائیں گے۔ لیکن تب لاہوری باؤلرز کو روکنا کم از کم آصف کے بس کی تو بات نہیں تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 50 رنز پر چوتھی وکٹ بھی گر گئی اور دباؤ مزید بڑھ گیا۔


بجلی بھری ہے...


ملتان کی اننگ کے آدھے اوورز ہوچکے تھے اور اسکور بورڈ پر صرف 58 رنز موجود تھے۔ سلطانز کو بالکل دیوار سے لگا دیکھ کر لاہور کے کھلاڑیوں میں بجلی سی بھر گئی تھی۔ ان کی تھرو لگتی تو براہِ راست وکٹوں پر جا لگتی، جو بلے باز شاٹ کھیلتا کیچ بن جاتا اور قلندری باؤلرز گیند پھینکتے تو وہ گلّیاں اڑا دیتی۔

آخری اوور میں عمران طاہر کی وکٹ گرتے ہی مقابلہ تمام ہوگیا اور لاہور جیت گیا!


ٹرافی سب کی


لاہور کی کامیابی کے ساتھ ہی پاکستان سپر لیگ میں ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی۔ لیگ کی تمام 6 ٹیموں نے کم از کم ایک مرتبہ ٹائٹل ضرور جیت لیا ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ نے سب سے زیادہ 2 مرتبہ جبکہ باقی ٹیموں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز، پشاور زلمی، کراچی کنگز اور ملتان سلطانز نے ایک، ایک بار سپر لیگ کی ٹرافی اٹھائی ہے۔

ویسے ایک دوسری تاریخ بنتے بنتے رہ گئی۔ اگر ملتان سلطانز جیت جاتے تو وہ اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کرنے والی بھی پہلی ٹیم ہوتے۔ خیر، یہ ریکارڈ کبھی نہ کبھی تو ٹوٹے گا۔ شاید اگلے سال لاہور قلندرز ہی توڑ دے؟


اعزازات


آخر میں آتش بازی کے شاندار مظاہرے، بھرپور جشن اور میدان کے فاتحانہ چکر کے بعد لاہور قلندرز کے کپتان شاہین آفریدی کو 8 کروڑ روپے کی انعامی رقم کے ساتھ دن کا سب سے بڑا اعزاز پی ایس ایل ٹرافی ملی۔

ملتان سلطانز کے کپتان محمد رضوان نے رنر اپ کے لیے 3 کروڑ 20 لاکھ روپے کا چیک وصول کیا اور ساتھ ہی سیزن کے بہترین کھلاڑی اور وکٹ کیپر بھی قرار پائے۔ فخر زمان کو سیزن میں سب سے زيادہ رنز بنانے پر بہترین بلے باز، شاداب خان کو بہترین باؤلر, خوشدل شاہ کو بہترین فیلڈر اور بہترین آل راؤنڈر جبکہ زمان خان کو بہترین ایمرجنگ کھلاڑی کی ٹرافیاں ملیں۔

تبصرے (0) بند ہیں