روسی افواج کی جانب سے یوکرین پر حملے کے باعث پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ روس کچھ ماند پڑگیا۔ یہ کسی بھی پاکستانی وزیرِاعظم کی جانب سے 23 سال بعد کیا جانے والا پہلا دورہ روس تھا۔ مگر اس دورے کے اثرات کو اب حالیہ بحران میں شامل فریقوں کے بیانات سے جانچا جائے گا۔ اس کے طویل مدتی اثرات بلکہ یوں کہیے کہ تقریباً ہر چیز کا ہی تعلق اس وقت قدرتی گیس کے مستقبل سے ہے۔

عمران خان کا دورہ اس وقت ہوا جب روسی گیس کے سب سے بڑے خریدار جرمنی کی جانب سے ایک نئی نورڈ اسٹریم 2 پائپ لائن کی سرٹیفیکیشن کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔

روس نے حال ہی میں صدر ولادیمیر پیوٹن کی بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے موقع پر چین کو گیس کی فراہمی کے 30 سالہ معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ روس اپنی تعمیراتی ٹیکنالوجی اور رکاز ایندھن (فوسل فیول) کے لیے نئے خریداروں کی تلاش میں ہے۔

پاکستان بھی قدرتی گیس کی قابل بھروسہ اور سستی فراہمی کے لیے بے چین ہے اور اس ضمن میں یہ دورہ روس کے لیے کراچی سے لاہور تک قدرتی گیس کی پائپ لائن تعمیر کرنے کی بنیاد بن سکتا ہے۔

روس قدرتی گیس پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں گیس کے کم ہوتے ذخائر کی وجہ سے گیس کی فراہمی میں مشکلات پیش آرہی ہیں اور اس وقت پاکستان کی توانائی ضروریات میں ایک بڑا حصہ گیس کا ہے۔

پاکستان کے وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے دی تھرڈپول سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ گیس پائپ لائن کی ’ٹیکنالوجی سیکھنے کا ایک موقع‘ ہے۔ ان کے مطابق روسی اس کام میں ماہر ترین لوگ ہیں۔ پاکستان کراچی کی پورٹ قاسم سے لے کر پنجاب کے شہر قصور تک ’پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن‘ کے نام سے 1100 کلومیٹر طویل پائپ لائن تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ڈھائی ارب ڈالر کا یہ منصوبہ اگلے سال شروع ہونے کا امکان ہے۔ اس منصوبے کے پہلے معاہدے پر 2015ء اور دوسرے معاہدے پر 2021ء میں دستخط ہوئے تھے۔

حماد اظہر نے بتایا کہ ’ہمارے پاس اس منصوبے کے لیے مطلوبہ مہارت نہیں ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’منصوبے پر پاکستان کی ملکیت [74فیصد] رہے گی، اس وجہ سے یہ سودا بُرا نہیں ہے‘۔

سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے 2013ء میں بحیثیت وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی وسائل اس منصوبے کا تصور پیش کیا تھا۔ وہ بھی کسی حد تک حماد اظہر کی بات کی تائید کرتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ منصوبہ مختلف ’مالی رکاوٹوں‘ کی وجہ سے غیر فعال رہا ہے۔

انہوں نے بڑے منصوبوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت تعمیر کرنے کے ماڈل پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے ڈر ہے کہ موجودہ حکومت کو بھی انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جن مشکلات کا سامنا ہماری حکومت کو تھا اور حکومت پائپ لائن کی تعمیر، اسے چلانے اور گیس منتقلی کی قیمت کے نظام کا جواز پیش نہیں کرسکے گی کہ پائپ لائن سے گزرنے والی گیس پر روس کو کتنی رقم دی جائے گی‘۔

بڑھتی ہوئی طلب اور گھٹتی ہوئی رسد

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق 2009ء میں پاکستان میں قدرتی گیس کی پیداوار عروج پر تھی، لیکن اس کے بعد سے مجموعی توانائی کی فراہمی میں فیصد کے اعتبار سے گیس کی طلب میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ایک بحران پیدا ہوا لیکن پاکستان کی کوششوں کے باعث اس بحران کے بڑھنے کی رفتار کم ہے۔

بڑے شہروں میں گیس کی طویل بندش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس سے رہائشیوں اور کاروبار دونوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں حکومت نے کہا کہ ملک میں مقامی گیس جلد ہی ختم ہوجائے گی اس وجہ سے مہنگی درآمدی گیس پر انحصار بڑھ رہا ہے۔

بطور سابق وزیرِ توانائی، شاہد خاقان عباسی نے لیکوئی فائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی درآمد کو گیس کی مقامی پیداوار میں کمی کی وجہ سے توانائی کے بحران کے فوری حل کے طور پر دیکھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے ایران سے ایک پائپ لائن کے ذریعے گیس لانے کی کوشش کی لیکن ایسا امریکی پابندیوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہوسکا، دوسری پائپ لائن ترکمانستان کی طرف سے لانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ بھی سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے نہیں ہوسکا کیونکہ اس پائپ لائن کو افغانستان سے گزرنا تھا‘۔

موجودہ وزیرِ توانائی حماد اظہر نے کہا کہ ’ہمیں اس پائپ لائن کی ضرورت اس وجہ سے ہے کیونکہ ہمیں مزید ایل این جی کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کو شروع کرنے کے لیے میرے تمام پیشروؤں نے کوششیں کی۔ موجودہ حکومت اگرچہ اس میں جلدی نہیں کرے گی لیکن ہم فیصلہ کن نتیجے پر پہنچنے سے بھی نہیں کترائیں گے‘۔

سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کا خیال ہے کہ پاکستان کو اب گیس پائپ لائن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مقامی گیس کی پیداوار بہت کم ہوچکی ہے اور موجودہ ٹرمینلز 60 فیصد صلاحیت پر کام کر رہے ہیں۔ پائپ لائنوں کا موجودہ نیٹ ورک مقامی اور درآمدی گیس کی ترسیل کے لیے کافی ہے‘۔

کمزور انفرااسٹرکچر اور ترسیل میں پڑنے والا خلل

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان واقعی گیس انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری جاری رکھنا چاہے گا؟ اسی سوال کی وجہ سے روس کا دورہ اور ایک ممکنہ معاہدہ پاکستان کے توانائی سے متعلق مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔

حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ’آج 60 فیصد ایل این جی 3 بجلی گھر استعمال کررہے ہیں جبکہ بقیہ 40 فیصد ایل این جی صنعتی شعبے کو دی جارہی ہے‘۔ ان کے مطابق مقامی گیس کی پیداوار میں کمی کے باعث ’کئی نئے صارفین‘ بشمول کھاد اور سیمنٹ فیکٹریوں نے بھی اب ایل این جی کا استعمال شروع کردیا ہے۔

حماد اظہر نے بتایا کہ اس وقت قطر انرجی سے ہر سال 45 لاکھ ٹن ایل این جی درآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان اس سے زیادہ گیس اٹالین آئل اینڈ گیس، ای این آئی اور گن وَر سے خریدتا ہے۔ لیکن یہ اب بھی پاکستان کے لیے کافی نہیں ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے گیس کے ذخائر سالانہ 9 فیصد کم ہو رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ درآمدی صنعتوں نے اپنی فیکٹریاں چلانے کے لیے ایل این جی کا استعمال شروع کردیا ہے۔

یہاں طلب تو موجود ہے لیکن اس کو پورا کرنے کے لیے مناسب انفرااسٹرکچر موجود نہیں ہے۔

پاکستان کے پاس پورٹ قاسم پر 2 ایل این جی ٹرمینل ہیں ان میں سے ایک اینگرو ایل این جی ٹرمینل لمیٹڈ (ای ای ٹی ایل) اور دوسرا پی جی پی کنسورشیم لمیٹڈ (پی جی پی سی ایل) ہے جو بالترتیب 2015ء اور 2017ء میں بنائے گئے تھے۔ 2023ء کے انتخابات نزدیک آتے جارہے ہیں اور گیس کی قلت کو ختم کرنے کے لیے حکومت کی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیرِاعظم نے وزارتِ توانائی کو 2023ء کے آخر تک تیسرا ٹرمینل بنانے کا حکم دے دیا ہے۔

لیکن پاکستان کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوتیں۔ اس موسمِ سرما میں 2 طویل المدتی کانٹریکٹ سپلائرز، ای این آئی اور گن وَر ایل این جی کی فراہمی میں ناکام ہوگئے۔ یوں پاکستان کو طلب پوری کرنے کے لیے قطر انرجی سے 30.6 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو میں ایل این جی خریدنی پڑی۔

ماہرِ معیشت اور صحافی خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’مقامی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ہمیں گیس کی بے پناہ قلت کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے ہمیں ریلیف کے لیے ایل این جی کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔ بلآخر یہ پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن ہے۔ اسی وجہ سے یہ پائپ لائن ملک کے لیے بہت اہم ہے‘۔

کیا ہم ماحول دوست توانائی کو بھولتے جارہے ہیں؟

ایسا لگتا ہے کہ ملک میں گیس بحران پر قابو پانے کی کوششوں میں حکومت ملک چلانے کے لیے ماحول دوست طریقہ کار کے اپنے وعدوں کو بھول چکی ہے۔

وقار زکریا ایک انوائرمنٹل کنسلٹنسی فرم ہیگلر اینڈ بیلی پاکستان کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں تو ایل این جی میں سرمایہ کاری کرنا قابلِ فہم تھا لیکن آج ایسا کرنا بہت مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایل این جی کبھی ’سب سے صاف اور سستا رکاز ایندھن‘ ہوا کرتی تھی اور پاکستان کے پاس استعمال کے لیے تیار انفرااسٹرکچر بھی موجود تھا۔ تاہم پاکستان اس بات کو نہیں سمجھ سکا کہ کوئلے اور تیل کی مقبولیت میں کمی آنے کی وجہ سے دنیا نقصاندہ ایندھن کے بجائے ایل این جی کی طرف آئے گی جس سے ایل این جی کی عالمی طلب اور قیمت میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ ملک کی ’وافر ہوا اور شمسی توانائی‘ سے فائدہ اٹھایا جائے اور بجلی کی پیداوار کے لیے درآمدی گیس پر انحصار کم کیا جائے۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ ہوا اور شمسی توانائی پر منتقل ہونے سے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔ انسٹیٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالسس کی ریسرچ ایسوسی ایٹ ہانیہ اساد کے مطابق ایک ایل این جی ٹرمینل لگانے میں تقریباً 40 سے 50 کروڑ ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے ابھی اس میں ٹرمینل چلانے کے اخراجات اور درآمدی ایندھن کی لاگت شامل نہیں کی ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے مقابلے میں اگر 6 لاکھ ڈالر فی میگاواٹ کے حساب سے کوئی سولر پلانٹ لگایا جائے تو ایل این جی ٹرمینل کی لاگت میں ہی ایک ہزار میگاواٹ کا سولر پلانٹ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سولر پلانٹ سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز ایل این جی سے خارج ہونے والی گیسز کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے کہ یہ مقامی طور پر دستیاب ہے اور قیمت میں بھی مناسب ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں ایل این جی کے کوئلے سے زیادہ محفوظ ہونے کے دعوے میں بھی احتیاط برتنی چاہیے۔ ’مختصر مدت میں تو شاید یہ کوئلے سے بھی زیادہ نقصاندہ ثابت ہو۔ ان کے مطابق کنویں سے نکلنے سے لے کر بجلی گھر میں جلنے تک ایل این جی کی پوری سپلائی چین کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کے اخراج کی وجہ بنتی ہے۔ ہانیہ کے مطابق 20 سال کے عرصے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں میتھین 80 گنا زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں وسائل کی کمی کو دیکھتے ہوئے اب بھی وقت ہے کہ ایل این جی کے شعبے سے سرمایہ نکال کر ماحول دوست متبادل شعبوں میں استعمال کیا جائے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈپول پر شائع ہوا جسے با اجازت یہاں شائع کیا جارہا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Mar 08, 2022 11:28am
پاکستان کو ایل این جی ٹرمینل اور سولر پلانٹ دونوں کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ سردیوں میں سولر پلانٹ کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے جو سولر پینل پر جو 17% جی ایس ٹی اور دوسرے ٹیکس نافذ کیے ہیں ان کو واپس لینے کی ضرورت ہے۔