’سلامتی کونسل مقبوضہ کشمیر میں جاری جنسی جرائم روکنے کیلئے اقدامات کرے‘

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2022
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم— فائل فوٹو: رائٹرز
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم— فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: پاکستان نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں خواتین کے خلاف ہونے والے جنسی تشدد پر توجہ دے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے عالمی یوم خواتین کے حوالے سے سلامتی کونسل کی ایک ہفتے تک جاری رہنے والی بحث میں جنگوں اور تنازعات میں جنسی تشدد کی روک تھام کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سیکیورٹی کونسل کی بحث میں مقبوضۃ کشمیر میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جاری تشدد پر کم ہی بات ہوتی ہے‘۔

’اس بات کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ زیادتی اور جنسی تشدد کو (اُس علاقے میں) جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے‘۔

مزید پڑھیے: بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں 2021 میں 210 کشمیریوں کو قتل کیا، رپورٹ

یہ معاملہ ’جینوسائیڈل ہیٹ اسپیچ اینڈ دی اسٹیٹس رسپانسبلٹی‘ کے عنوان سے واشنگٹن میں ہونے والے حالیہ ورچوئل سمٹ میں بھی اٹھایا گیا تھا۔

انٹرنیشنل کرمنل ٹریبونل کے سابق رجسٹرار برائے روانڈا ایڈما ڈئینگ نے شرکا کو بتایا تھا کہ ’بھارت میں نسل کشی جاری ہے‘ انہوں نے شرکا سے اس پر قابو پانے کے لیے تجاویز طلب کی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج بھارت میں مذہبی عدم برداشت کی وجہ سے بین المذاہب ہم آہنگی کو پامال کیا جارہا ہے، بد قسمتی سے حکام اس عدم برداشت اور تعصب سے لاتعلق نظر آتے ہیں‘۔

ایڈما ڈئینگ نے بھارت میں مقیم 20 سے زائد مسلمانوں کے حوالے سے کہا کہ جب مسلم اقلیت کو ہدف بنانے والا شہریت کا ترمیمی بل لاگو ہوا تو خود انہیں بھی بہت افسوس ہوا۔

مزید پڑھیے: پاکستان کا اقوام متحدہ سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر نوٹس لینےکا مطالبہ

انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو خبردار کریں کہ ’بھارت میں قتل عام سے بین الاقوامی تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے‘۔

’وائر‘ اور ’الجزیرہ‘ میں لکھنے والے بھارتی صحافی علی شان جعفری کا کہنا تھا کہ سال 2014 کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا اور انہیں گائے کا گوشت کھانے پر ہلاک کیا جانے لگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سال 2014 سے 2019 کے درمیان جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا وہ سب سے زیادہ کمزور لوگ تھے۔ وہ ڈیری اور گوشت کی صنعت سے وابستہ تھے جو ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے۔

انہوں نے توجہ دلوائی کے کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران الزام عائد کیا گیا کہ یہ وبا مسلمانوں نے پھیلائی ہے اور وہ ہندوؤں کو مار کر بھارت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں تک بھی ہوا کہ مسلم کانگریس کے بااثر رکن پارلیمنٹ اور بھارت کے سابق وزیر برائے خارجہ امور سلمان خورشید پر بھی حملہ کیا گیا اور ان کے گھر کو آگ لگادی گئی‘۔

مزید پڑھیے: پاکستان سلامتی کونسل میں بھارتی طرز عمل پر کڑی نظر رکھے گا، منیر اکرم

حکمران جماعت کے اراکین کی جانب سے یہ بھی پروپیگنڈا کیا گیا کہ بھارت کے مشہور ترین مسلمان فلم اسٹار شاہ رخ خان نے ایک جنازے پر تھوکا ہے۔

ایک بھارتی صحافی اور شاعر کوشیک راج نے شرکا کو بتایا کہ 2014 میں بی جے پی حکومت کے آنے کے بعد سے صورتحال میں بہت تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔

انہوں نے توجہ دلائی کہ اتر پردیش میں محمد اخلاق کی ہجوم کے ہاتھوں موت پر دنیا بھر سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا لیکن حکمران جماعت کے مقامی صدر نے مجرمان سے ملاقات کرکے ’انہیں سرکاری نوکریاں دینے کا وعدہ کیا اور پھر انہیں سرکاری نوکریاں دی گئیں‘۔

کوشیک راج نے شرکا کو بتایا کہ سال 2020 میں نئی دہلی میں سیکڑوں مسلمانوں کے قتل میں ملوث کسی بھی گرفتار شخص کو اب تک سزا نہیں ہوئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں