اکثر پاکستانیوں کو یہ بات معلوم ہے کہ 1971ء کی جنگ میں ایک پاکستانی آبدوز نے بھارتی بحری جہاز آئی این ایس کھکری (INS Khukri) کو تارپیڈو سے نشانہ بناکر تباہ کردیا تھا۔ تاہم جو لوگ اس معاملے کی اصل گہرائی اور پیچیدگی کو سمجھنا چاہتے ہیں انہیں اس موضوع پر لکھی میاں ظاہر شاہ کی کتاب ’دی اسٹوری آف پی این ایس ہنگور‘ ضرور پڑھنی چاہیے۔

مصنف خود بھی ڈارموتھ کے تربیت یافتہ ہیں اور ریئر ایڈمرل رہنے کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار سب میرینر ہیں۔ اس وجہ سے ان کی کتاب بھی تکنیکی اصطلاحات سے بھری پڑی ہے۔ یہ تکنیکی اصطلاحات قابلِ غور بھی ہیں کیونکہ اس کے بغیر نہ ہی اس جھڑپ کا درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس شاندار آبدوز کی تاریخ کو سمجھا جاسکتا ہے۔

بنگالی زبان میں شارک مچھلی کو ’ہنگور‘ کہتے ہیں اور اس ہنگور کی جانب سے پانیوں میں بھارتی خون کی تلاش اس وقت شروع ہوئی جب پاکستان نے فرانس میں بنی یہ ڈیفنی کلاس آبدوز حاصل کی۔ اس کا مقصد پرانی آبدوزوں جیسے کہ مشہور آبدوز غازی کو تبدیل کرنا تھا۔

ہنگور میں پرانی آبدوزوں کی نسبت زیادہ بہتر سونار (ہدف کی نشاندہی کی زبردست صلاحیت) موجود تھی لیکن یہاں میں ایک اور نکتہ بیان کرنا چاہوں گی جس کا علم شاید پاک بحریہ کو بھی نہ ہو۔ وہ نکتہ اس بارے میں ہے کہ افسانوی طور پر ڈیفنی تھی کون؟ وہ دریا کے دیوتا کی بیٹی تھی۔ یونانی دیوتا اپولو اس کے تعاقب میں تھا لیکن اس نے اپنی عصمت کے تحفظ کے لیے ایک درخت میں تبدیل ہوجانے کو گوارا کیا۔

قسمت ڈیفنی کے ساتھ تھی اور درحقیقت قسمت اس پاکستانی آبدوز کے بھی ساتھ تھی۔ ہنگور کی کہانی کے ہیرو وائس ایڈمرل احمد تسنیم خاص طور پر اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ بھارتی جہاز کی جانب پہلا تارپیڈو مثالی درستگی کے ساتھ فائر کیا گیا تھا لیکن پھر بھی اس نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا نقصان دوسرے تارپیڈو نے پہنچایا جبکہ دوسرا تارپیڈو نسبتاً مشکل اور پیچیدہ صورتحال میں فائر کیا گیا تھا۔

مصنف نے انتھک محنت کرکے اس واقعے کے ان تمام مرکزی کرداروں سے بات کی جو اب تک حیات ہیں۔ ان تمام افراد کے ناموں کی فہرست کتاب کے آخر میں موجود ہے۔

ایک اچھے نیول افسر کی طرح ایڈمرل احمد تسنیم نے بہت مستعدی کے ساتھ آبدوز کا انتظام سنبھالے رکھا۔ مصنف نے بھی کتاب میں اہلکاروں کی تعریف کی ہے جنہوں نے ہر مشکل کو پُرسکون رہتے ہوئے حل کیا۔ پھر چاہے ہنگامی سرجری کرنی ہو یا پھر خراب اے سی کی مرمت یا اہم کاغذات کچھ دیر کے لیے اِدھر اُدھر ہوگئے ہوں۔

تاہم ہنگور کے ایڈونچر سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ بحریہ اپنی تنظیم کے حوالے سے کتنی ہی تیار کیوں نہ ہو کبھی کبھی بہرحال کچھ ایسی چیزیں ہو جاتی ہیں جن کا کسی کو گمان بھی نہیں ہوتا۔

جو چیز اکثر قابلیت اور فتح کے درمیان فرق پیدا کرتی ہے وہ قسمت ہے۔ لیکن خود کو غیر متوقع حالات کے مطابق ڈھالنے اور کسی معاملے کی گہرائی اور سچائی کو سمجھنے کے لیے اپنی جبلت کو استعمال کرنے کی صلاحیت بھی اتنی ہی اہم ہے۔ مصنف نے تحریر میں اس صلاحیت کا اظہار اس وقت کیا جب انہوں نے ہنگور کے سونار آپریٹر پیٹی آفیسر محمد مسکین سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے جھڑپ کے دوران ڈیپتھ چارجز (آبدوز کے خلاف استعمال ہونے والے ہتھیار) کی آواز سنی تھی؟

اس حوالے سے کئی متضاد باتیں موجود ہیں اور مصنف اس نکتے کی وضاحت کے لیے حسن ابدال تک گئے جہاں محمد مسکین ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگرچہ ان کا ایک کان بہت زیادہ حساس ہے لیکن ان کا دوسرا کان تقریباً کام نہیں کرتا۔ وہ آبدوز میں ’گولڈن ایئر‘ کہلاتے تھے۔ محمد مسکین نے بتایا کہ انہوں نے کسی ڈیپتھ چارج کی آواز نہیں سنی تھی۔

اس قسم کی تحقیقی اور تکنیکی مہارت ہی اس کتاب کو دیگر پاکستانی اور غیر ملکی کتابوں سے جدا کرتی ہے جن میں بحری زندگی کے واقعات کو بہت دلکش انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ میں اس بات سے بہت زیادہ متاثر ہوں کہ مصنف نے اس حوالے سے بھارتی مؤقف بھی حاصل کیا ہے۔ یہ مؤقف انہوں نے کئی افراد کی زبانی شامل کیا جس میں کھکری کے کپتان کیپٹن مہندرا ناتھ ملا اور دیگر افراد کے بارے میں بات کی گئی۔ کتاب میں دوسری جانب کے بیانات کو اٹالکس (italics) میں لکھا گیا ہے۔

میری ٹائم میوزئم میں موجود پی این ایس ہنگور—تصویر: دی اسٹوری آف پی این ایس ہنگور
میری ٹائم میوزئم میں موجود پی این ایس ہنگور—تصویر: دی اسٹوری آف پی این ایس ہنگور

اگرچہ ساتھی بھارتی جہاز کرپان (Kirpan) کا عملہ پاکستان کے ہاتھوں کھکری کی تباہی دیکھ کر مشتعل تو تھا لیکن پھر بھی انہوں نے خود کھکری کے بچ جانے والے عملے کی مدد نہ کی۔ یہ ایک متنازع فیصلہ تھا کیونکہ اس فیصلے نے انہیں تو محفوظ رکھا لیکن کھکری کے بچ جانے والے عملے کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔ بلآخر کھکری کے عملے کے بچ جانے والے ارکان کو لائف رافٹس کی مدد سے بچالیا گیا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بھارتی بحریہ ٹائی ٹینک (Titanic) کی نسبت زیادہ ذہین تھی۔ ٹائی ٹینک میں جان بچانے کے سامان کا مناسب انتظام ہی نہیں تھا۔

اگر میڈیا کے حوالے سے دیکھا جائے تو بحری جہازوں اور آبدوزوں کو بہت مقبولیت ملتی ہے اور یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ فلم ٹائی ٹینک باکس آفس کی مشہور ترین فلم ہے۔ تاہم ہنگور کی کہانی مجھے اس سے کہیں زیادہ دلچسپ بحری فلم کی یاد دلاتی ہے۔ نہیں میں ’دی ہنٹ فار ریڈ اکتوبر‘ یا ’کرمسن ٹائیڈ‘ کی بات نہیں کررہی بلکہ میں تو ’کے 19: دی ویڈومیکر‘ کی بات کررہی ہوں۔ یہ فلم ایک روسی آبدوز کے بارے میں ہے جس کا عملہ بہادری کے ساتھ بحری جوہری تباہی کو ہونے سے روک دیتا ہے۔

آج کے دور میں میڈیا پر پیش کی جانے والی سیاسی طور پر درست کاوشوں کے برعکس اس فلم میں کوئی خاتون کردار شامل نہیں ہے کیونکہ سمندر کی زندگی سخت مشکل اور غیر معذرت خواہانہ طور پر مردانہ ہوتی ہے۔ مصنف نے کتاب کے ابتدائی صفحات میں یہ ذکر کیا ہے کہ نیول افسران کی بیویاں اکثر ان اہلکاروں کے درمیان موجود اسپرٹ ڈی کور کو سمجھ نہیں پاتیں۔

لیکن ادنیٰ سے اعلیٰ عہدے تک کام کرنے والا ہر اہلکار اسے بخوبی سمجھتا ہے۔ اس کی ایک بہترین مثال اس وقت سامنے آئی جب ہنگور کو فعال رکھنے کے لیے چیف آرڈیننس آرٹیفیسر عبد العزیز اور احمد تسنیم آستینیں چڑھا کر ساتھ کام کرنے لگے۔ اس موقع پر ہنگور کی تاریخ اور خاص طور پر اس کے ساتھ احمد تسنیم کے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے کتاب میں یہ بیان کیا جارہا تھا کہ اس وقت عہدوں کا فرق ایک جانب ہوگیا تھا، وہ دونوں ملاح تھے جو اپنی آبدوز کی حفاظت کے لیے کوششیں کررہے تھے۔

درحقیقت احمد تسنیم اور ان کے قابل عملے کے بارے میں نفسیاتی حوالے سے یہی بات سب سے زیادہ قابلِ ذکر تھی۔ وہ جنگ لڑنے والے لوگ تھے اور انہوں نے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھا۔ شاید یہی صلاحیت ان کی کامیابی اور ان کے متاثر کن ٹیم ورک کی بنیاد تھی جس نے ہمارے سب سے مضبوط دشمنوں میں سے ایک کے دل میں حقیقی خوف ڈالنے میں مدد کی۔

جب کھکری ڈوب رہا تھا تو اس کے کپتان نے اپنے عملے کو چیخ چیخ کر کہا کہ ’جاؤ، جاؤ‘۔ اس کی آواز کی غمگینی بالکل صداقت کے ساتھ مصنف کی تحریر میں جھلکتی ہے۔ اسی طرح مصنف نے بہت محنت کے ساتھ سمندر کے اندر خاموشی کے ساتھ کیے جانے والے سفر اور سونار کی اہمیت کو من و عن بیان کرنے کے لیے بھی بہت محنت کی ہے۔ کھکری کے کپتان عملے کے ان 194 ارکان میں شامل تھے جو جہاز کے ساتھ ہی ڈوب گئے۔

اب میں دو دلکش نکات پر اپنی بات ختم کرتی ہوں۔ مجھے کتاب میں شامل تصویروں سے بہت خوشی ہوئی۔ ان سب کا سہرا خود مصنف کو دیا جاسکتا ہے۔ ہاتھی سے مشابہہ رن آف کَچ کی تصویر نہ صرف اس کی درستگی بلکہ اس کی ظاہری خوبصورتی کی وجہ سے بھی خاص طور پر یادگار ہے۔

لیکن مجھے اس سے زیادہ حیرت اس بات سے ہوئی کہ اس شارک جیسی آبدوز کو کس دھوم دھام اور عزت و تکریم کے ساتھ کراچی کے میری ٹائم میوزم میں لایا گیا۔ اس کے تمام انجن، اندرونی سامان اور میلوں لمبی تاروں اور پائپوں کو احتیاط کے ساتھ نکال کر ان پر لیبل لگائے گئے تاکہ انہیں دوبارہ درست مقام پر لگایا جاسکے۔ اس کے بعد آبدوز کو 3 حصوں میں کاٹا گیا۔ ان تینوں حصوں کو پرپیچ راستوں سے گزار کر میوزم تک لایا گیا اور اسے دوبارہ جوڑا گیا۔

اس نکتے اور اس شاندار کتاب دونوں کو میری توجہ میں لانے کا سہرا کیپٹن احمد ظہیر کے سر ہے۔ میں آخر میں اس بات پر زور دینا چاہوں گی کہ اگر کوئی ہماری بحری افواج کی شاندار صلاحیتوں کا ثبوت چاہتا ہے، تو اسے صرف ہنگور کا دورہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یقین کیجیے کہ وہ اس پر افسوس نہیں کرے گا۔ سمندر کی اس شارک کو جو خراج تحسین مصنف نے پیش کیا ہے اس میں ہمیں بھی ان کے ساتھ شامل ہونا چاہیے۔


نام کتاب: دی اسٹوری آف پی این ایس ہنگور

مصنف: میاں ظاہر شاہ

ناشر: پی این بک کلب، اسلام آباد

آئی ایس بی این: 9698318079-978

صفحات: 246


یہ تبصرہ 13 مارچ 2022ء کو ڈان بکس اینڈ آتھرز میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں