فنڈز جاری نہ ہونے کے سبب ریلوے کے پنشنرز کو رقم کی عدم ادائیگی کا خدشہ

اپ ڈیٹ 22 مارچ 2022
وزارت خزانہ بقیہ رقم جاری نہیں کرتی تو پاکستان ریلویز کو پنشن کی ادائیگی میں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا — فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
وزارت خزانہ بقیہ رقم جاری نہیں کرتی تو پاکستان ریلویز کو پنشن کی ادائیگی میں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا — فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

اسلام آباد: ملک کے سب سے بڑے سرکاری ادارے پاکستان ریلوے کے پنشنرز کے ابتر حالات بدستور جاری ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وزارت خزانہ کی جانب سے پنشن کی ادائیگی کے لیے مکمل رقم جاری نہ کیے جانے کی وجہ سے تمام پنشنرز اس ماہ پہلے ہی سے تاخیر کا شکار ماہانہ پنشن حاصل نہیں کر پائیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس پیشرفت سے باخبر وزارت ریلوے کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزارت خزانہ سے پنشن کی مد میں سالانہ اخراجات کے لیے 48 ارب روپے مختص کرنے کی درخواست کی گئی تھی، تاہم 42 ارب روپے جاری کیے گئے جس میں سے 36 ارب روپے پہلے ہی پنشنرز کو دے دیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: مالی بحران میں ڈوبے محکمہ ریلوے کا حکومت سے مدد طلب کرنے پر غور

ذرائع نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر وزارت خزانہ بقیہ رقم جاری نہیں کرتی تو پاکستان ریلویز کو آنے والے مہینوں میں ریٹائرڈ ملازمین اور بیواؤں کو پنشن کی ادائیگی میں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ذرائع کے مطابق وزارت ریلوے دیگر سرکاری محکموں اور سرکاری ملازمین کی طرح ریلوے ملازمین کو پنشن کی ادائیگی کے لیے وزارت خزانہ سے بات چیت کر رہی ہے، تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

سیکریٹری ریلوے نے یکم مارچ کو وزارت خزانہ کو خط لکھا تھا جس میں پاکستان ریلوے کی پنشن کی ادائیگی کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان ریونیو کو منتقل کرنے کی درخواست کی گئی تھی، خط میں مزید کہا گیا تھا کہ پنشن کی ادائیگی کا رول یکم مارچ کو پنشن کے ٹرانسفر کے لیے تیار تھا تاہم پنشن کے متعلقہ اکاؤنٹ میں کریڈٹ بیلنس ناکافی ہے اور وزارت خزانہ اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دے رہی۔

سیکریٹری خزانہ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ یہ معاملہ پاکستان ریلوے کے تقریباً سوا لاکھ پنشنرز کا ہے اور خبردار کیا کہ اس سے پنشنرز میں بے چینی پھیل سکتی ہے جو حکومت کے لیے شرمناک ثابت ہو سکتی ہے، پنشن کی ادائیگی میں تاخیر بھی سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش، پینشن میں 10 فیصد اضافہ

خط میں کہا گیا کہ وزارت ریلوے نے فنڈز کے اجرا کے لیے فنانس ڈویژن کو ساڑھے 4 ارب روپے کی درخواست جمع کرائی تھی جسے فنانس ڈویژن نے قبول نہیں کیا۔

ریلوے اور خزانہ کی وزارتیں ابھی تک کسی فیصلے تک نہیں پہنچی ہیں اور ایسی صورت میں پنشنرز بالخصوص کم تنخواہ والے افراد اور بیواؤں کو وقت پر پنشن حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، معلوم ہوا ہے کہ پنشن کی ادائیگی کے مجاز دو کمرشل بینکوں کو ابھی تک ادائیگی کے لیے اسکرولز موصول نہیں ہوئے۔

پاکستان ریلوے کے ملازمین کے لیے وزیراعظم کے امدادی پیکج کے مطابق فنڈز جاری کر دیے گئے ہیں اور پنشنرز پنشن حاصل کر سکیں گے، تاہم سرکاری تعطیلات کے باعث تمام بینک بند ہیں اس لیے ادائیگی تب ہی ممکن ہو سکے گی جب بینک دوبارہ کھلیں گے۔

وزارت ریلوے نے وزارت خزانہ کو دیگر سرکاری ملازمین کی طرح پنشنرز کو براہ راست ادائیگی کے انتظامات کرنے کی تجویز دی تھی، لیکن مؤخر الذکر نے ابھی تک اس تجویز پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

حکومت پاکستان ریلوے پنشن فنڈ کے قیام کی تجویز کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہے، اس سلسلے میں پاکستان ریلویز کی خدمات حاصل کرنے والی ایک بین الاقوامی فرم نے پنشن فنڈ کے قیام کے لیے عملدرآمد کا طریقہ وضع کرتے ہوئے اپنی تجاویز پیش کی تھیں۔

مزید پڑھیں: ریلوے کے مستقل ہونے والے 80 ملازمین سے متعلق سروس ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار

فنڈ کے قیام کا مقصد ملازمین کی پنشن پر آنے والے اخراجات کو برداشت کرنا تھا، پنشن فنڈ کے قیام میں کافی تاخیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے اب تک پنشن کا کوئی ذخیرہ نہیں بن سکا ہے، پنشن واجبات کے کسی قابل اعتبار تخمینہ کی عدم موجودگی نے پاکستان ریلوے کے سالانہ بجٹ پر پنشن کے اخراجات کے بڑھتے ہوئے اثرات کو معقول بنانے کے لیے ممکنہ اصلاحات میں بھی رکاوٹ ڈالی ہے۔

پاکستان ریلوے اپنی ڈیفائنڈ بینیفٹ پنشن اسکیم کو 'پے گو' کی بنیاد پر چلاتا ہے اور پنشن کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت اس وقت پاکستان ریلویز کے پنشن کے اخراجات برداشت کر رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں