سابق ایس ایچ او کے قتل کے تانے بانے لیاری گینگ وار سے ملے ہیں، کراچی پولیس سربراہ

اپ ڈیٹ 24 مارچ 2022
غلام نبی میمن نے کہا کہ پولیس نے دیگر ملزمان اور عینی شاہدین کی حفاظت کے لیے نئی حکمتِ عملی تیار کی ہے — فائل فوٹو: ٹوئٹر
غلام نبی میمن نے کہا کہ پولیس نے دیگر ملزمان اور عینی شاہدین کی حفاظت کے لیے نئی حکمتِ عملی تیار کی ہے — فائل فوٹو: ٹوئٹر

ارشد پپو کیس میں نامزد سابق ایس ایچ او اور ان کے دوست کو رواں ہفتے دن دیہاڑے قتل کردیا گیا تھا، تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ قتل لیاری میں سرگرم گینگز میں سے کسی ایک نے کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برطرف پولیس انسپکٹر چاند خان نیازی اور ان کے دوست عبدالرحمٰن کو صدر میں فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا، مقتولین 2013 کے تہرے قتل کے مقدمے کی سماعت کے بعد موٹر سائیکل پر واپس جارہے تھے۔

ارشد پپو قتل کیس کا مقدمہ کراچی کی سینٹرل جیل کے جوڈیشل کمپلکس میں واقع انسدادِ دہشت گردی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

31 دسمبر 2021 کو جاوید بلوچ اور ان کے دوست محمد مصدق کو سولجر بازار میں ہونے والے اسی طرح کی ٹارگٹڈ حملے میں اس وقت فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا جب وہ ارشد پپو کیس کی سماعت کے بعد واپس انسدادِ دہشت گردی عدالت سے گھر جارہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ارشد پپو قتل کیس میں نامزد سابق ایس ایچ او فائرنگ سے قتل

دونوں واقعات نے پولیس کو خاص مقدمات کی سماعت آن لائن کرنے سے متعلق عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور کردیا ہے، ان واقعات کے بعد ضمانت پر رہا اور مقدمے میں نامزد دیگر ملزمان کے لیے ’سیکیورٹی خدشات‘ پیدا ہوگئے ہیں۔

قاتلوں کی شناخت

کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے ڈان کو بتایا کہ دونوں سابق ایس ایچ اوز پر حملہ کرنے والے قاتلوں کی شناخت کرلی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ قاتلوں کا تعلق لیاری گینگ وار سے ہے جبکہ ملزمان کی شناخت ہوچکی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے دیگر ملزمان اور عینی شاہدین کی حفاظت کے لیے نئی حکمتِ عملی تیار کرلی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عزیر بلوچ پر ارشد پپو قتل کیس میں فرد جرم عائد

کراچی پولیس چیف کا کہنا ہے کہ انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں جبکہ عدالت سے آئندہ ہفتے ہونے والی سماعت آن لائن کرنے کی درخواست کی جارہی ہے۔

گینگسٹر کی لیاری واپسی

لیاری کے سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سابق ایس ایچ او چاند نیازی شاہ بیگ لین کے رہائشی تھے، جہاں ان کی میانوالی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد طویل عرصے سے مقیم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ لیاری کی معروف شخصیت تھے، جو گینگ وار کے ظہور سے قبل بھی منشیات فروشوں کے علاقے سے متعلق ’واقفیت‘ رکھتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ 2013 میں کراچی آپریشن کے بعد کچھ گینگسٹرز چھپ گئے یا فرار ہوگئے تھے جو حال ہی میں لیاری واپس آئے ہیں اور ’شہریوں کو بھتے کی پرچیاں‘ دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لیاری گینگ وار کا اہم کردار ارشد پپو ہلاک

سماجی رہنماؤں نے مزید کہا کہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ارشد پپو کے دو قریبی رشتہ داروں کو منگل کی شام گرفتار کیا گیا ہے۔

تاہم پولیس کی جانب سے مذکورہ گرفتاری پر لاعلمی کا اظہار کیا گیا ہے۔

واقعے کا مقدمہ درج

واقعے کا مقدمہ سابق ایس ایچ او کے بیٹے غلام مصطفیٰ نیازی کی مدعیت میں پریڈی تھانے میں درج کرلیا گیا ہے۔

مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302 (منصوبے کے تحت قتل)، 34 (مشترکہ ارادہ) اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 شامل کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: عزیر بلوچ کو فوج نے 3 سال بعد جیل حکام کے حوالے کردیا

شکایت کنندہ نے پولیس کو بتایا کہ ان کے والد سابق پولیس انسپکٹر تھے اور وہ ارشد پپو کیس میں نامزد تھے، عبدالرحمٰن ان کے والد کا دوست تھا جو اسی کیس میں نامزد تھا، اس کی تصدیق لیاری گینگ وار کے گینگسٹر کے عزیر بلوچ کے وکیل نے بھی کی ہے۔

ایڈووکیٹ عابد زمان نے یہ بھی کہا کہ عبدالرحمٰن الگ شخص تھا، وہ بلوچستان میں استاد تھا۔

وکیل نے کہا کہ استغاثہ نے عبدالرحمٰن پر کیس کا خاص کردار ہونے سے متعلق کوئی الزام نہیں لگایا، ان پر صرف مرکزی ملزمان سے تعلق ہونے کی بنا پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

عزیر بلوچ سمیت دونوں مقتول ایس ایچ اوز 2013 میں ارشد پپو، اس کے بھائی یاسر عرفات اور بااعتماد ساتھی جمعہ شیرا کے تہرے قتل کے مقدمے میں نامزد تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں