نیب کے تمام عہدیداروں کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے، ایاز صادق کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 14 اپريل 2022
مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے  اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق پی پی پی رہنما شیری رحمٰن کے ہمراہ اسلام آباد میں میڈیا  سے گفتگو کر رہے تھے—فوٹو:ڈان نیوز
مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق پی پی پی رہنما شیری رحمٰن کے ہمراہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے—فوٹو:ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے دور حکومت کے دوران کرپشن میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین سمیت تمام عملے کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا جائے۔

پیپلزپارٹی کی نائب صدر شیری رحمٰن کے ہمراہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایاز صادق نے نیب پر اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کی غلط کاریوں سے آنکھیں چرانے اور ان کے حریفوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے بھی گزشتہ روز نیب کے خلاف اسی طرح کے خیال کا اظہار کیا تھا اور اپنی پارٹی کی نو منتخب حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ نیب کو تحلیل کر کے اس کے ملازمین کا احتساب کرے۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت کی کرپشن چھپانے کیلئے چیئرمین نیب کی مدت میں توسیع کی گئی، شاہد خاقان عباسی

آج ایک پریس کانفرنس میں ایاز صادق کا کہنا تھا کہ نیب کا یہ سمجھنا غلط تھا کہ اس کی اپنی تمام "بدکاریوں" کے باوجوداس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی، ہمیں ہمیشہ عمران خان اور نیب کے درمیان گٹھ جوڑ کا یقین تھا، اور یہ تعلق وقت کے ساتھ سچ ثابت ہوا۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ نیب کے تمام عہدیداروں کے عالی شان طرز زندگی کی تحقیقات کی جائیں۔

قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے اراکین کی جانب سے جمع کرائے گئے استعفوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایاز صادق نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کا اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا ارادہ نہیں ہے اور وہ اس معاملے پر محض ایک جعلی تاثر پیدا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:نیب قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے، شاہد خاقان عباسی

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ استعفیٰ جمع کرانے کا ایک مناسب طریقہ کار ہے جس میں اسپیکر کے سامے ذاتی حیثیت میں پیش ہونا ہوتا ہے، استعفے اس طرح نہیں دیے جاتے جس طرح پی ٹی آئی نے جمع کرائے ہیں، انہوں نے جان بوجھ کر مستعفی ہونے کےعمل کے قواعد سے گریز کیا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے تحفظات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مسلم لیگ ن کے رہنما ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم حکومت کا حصہ ہے اور ان کے ساتھ کیا گیا معاہدہ موجود ہے۔

پی ٹی آئی استعفوں کا معاملہ، قاسم سوری پر قانون کی خلاف ورزی کا الزام

ادھر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) نے قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ پر دباؤ ڈالا اور آئینی تقاضوں کو پورا کیے بغیر پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیجے۔

دونوں جماعتوں نے دعویٰ کیا کہ قاسم سوری نے ذاتی طور پر ان کی بات سنے بغیر استعفوں کو منظور کر کے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔

سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے کہا کہ قاسم سوری نے ایک بار پھر قانون کی خلاف ورزی کی ہے، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دستخطوں کی تصدیق کر لی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ قومی اسمبلی رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس کے رول 43 کے مطابق ہر رکن کو انفرادی طور پر استعفیٰ اور دستخط کی تصدیق کے لیے اسپیکر کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا کیونکہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی نے مشترکہ طور پر استعفے پیش کیے تھے، پی ٹی آئی کے متعدد اراکین قومی اسمبلی یہ کہتے ہوئے سامنے آئے ہیں کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اپنایا جانے والا موجودہ طریقہ کار ناصرف غیر قانونی تھا بلکہ غیر منصفانہ بھی تھا کیونکہ وہ استعفیٰ نہیں دینا چاہتے لیکن پھر بھی انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

شیری رحمٰن نے دعویٰ کیا کہ کچھ اراکین شکایت کر رہے تھے کہ ان کے استعفوں پر جعلی دستخط ہیں اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ پر ان کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو ہدایت کی جائے کہ استعفوں کے لیے آئینی طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔

ایاز صادق نے کہا کہ پی ٹی آئی 2014 کا واقعہ دہرا رہی تھی جب اس کے اراکین قومی اسمبلی نے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن وہ اپنے استعفوں کی تصدیق کے لیے اسپیکر کے سامنے پیش ہونے کو تیار نہیں تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے کچھ قانون سازوں نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے رابطہ کیا ہے اور استعفے قبول نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں