افغان دارالحکومت کے اسکول میں دھماکا، 6 افراد ہلاک

اپ ڈیٹ 19 اپريل 2022
طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد عوامی مقامات پر حملوں میں بڑی حد تک کمی آئی ہے — فوٹو: طلوع نیوز
طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد عوامی مقامات پر حملوں میں بڑی حد تک کمی آئی ہے — فوٹو: طلوع نیوز

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع لڑکوں کے اسکول میں دھماکے کے نتیجے میں 6 افراد ہلاک اور 11 زخمی ہوگئے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے بتایا کہ دھماکا عبدالرحیم شاہد اسکول میں ہوا، جس کے لیے دیسی ساختہ دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا، واقعے میں 6 افراد ہلاک اور 11 زخمی ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ابتدائی معلومات ہیں، مزید تفصیلات کے لیے ہم جائے وقوع پر موجود ہیں۔

خالد زدران کا مزید کہنا تھا کہ اسی علاقے میں تیسرا دھماکا ایک انگلش لینگویچ سینٹر میں ہوا لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ دھماکا خیز مواد کے سبب ہوا ہے، یا اس دھماکے کی وجہ کچھ اور تھی۔

مزید پڑھیں: افغانستان: ننگرہار میں دھماکے سے 9 بچے جاں بحق

قبل ازیں ترجمان پولیس نے ٹوئٹ کیا تھا کہ اسکول میں 3 دھماکے ہوئے، دھماکے اس علاقے میں ہوئے جہاں زیادہ تر ہزارہ برادری آباد ہے۔

خیال رہے قبل ازیں داعش کے ایک گروپ کی جانب سے مذکورہ علاقے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

عینی شاہد نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ دھماکا اس وقت ہوا جب طلبہ صبح کی کلاسز لے کر واپس آرہے تھے۔

سوشل میڈیا پر جاری کردہ درد ناک تصاویر میں اسکول کے میدان اور دروازے پر متعدد لاشیں دیکھی جاسکتی ہیں۔

تصاویر میں خون کے دھبے، جلی ہوئی کتابیں اور بکھرے ہوئے اسکول کے بستے نظر آئے، طالبان جنگجوؤں نے جائے وقوع کو گھیرے میں لے لیا ہے، متاثرین کو ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے لیکن طالبان جنگجوؤں کی جانب سے صحافیوں کو جائے حادثہ سے دور کیا جارہا ہے۔

طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد عوامی مقامات پر حملوں میں بڑی حد تک کمی آئی ہے، تاہم ملک بھر میں داعش بدستور فعال ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: ہرات میں مسافر بس دھماکے سے خواتین سمیت 7 افراد جاں بحق

ہزارہ برادری پر ہونے والے گزشتہ حملے کا الزام طالبان پر بھی عائد کیا گیا تھا، ہزارہ برادری ملک کی تقریباً 3 کروڑ 80 لاکھ آبادی کا 10 سے 20 فیصد ہے۔

طالبان حکام کا اصرار ہے کہ ان کی فورسز نے داعش کو شکست دے دی ہے تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ گروپ افغانستان کی سخت گیر اسلامی حکومت کے لیے چیلنج ہے۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان، داعش کے چھپے ہوئے کارندوں کو پکڑنے کے لیے روزانہ چھاپے مار رہے ہیں، یہ چھاپے زیادہ تر ننگرھار صوبے میں مارے جا رہے ہیں۔

داعش کی جانب سے حال ہی میں افغانستان میں ہونے والے خطرناک دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی جاچکی ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: ننگرہار کی مسجد میں دھماکا، 3 افراد جاں بحق

گزشتہ سال مئی میں ہونے والے دھماکے میں 85 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تعداد خواتین طلبہ کی تھی، دشتِ برچی میں واقع اسکول کے قریب ہونے والے دھماکے میں 300 افراد زخمی ہوئے تھے۔

واقعے کی ذمہ داری کسی گروپ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی تھی۔

تاہم اکتوبر 2020 میں اسی علاقے میں ایک تعلیمی ادارے پر خودکش حملہ ہوا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی، دھماکے میں طلبہ سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مئی 2020 میں گروپ پر ہسپتال کے میٹرنٹی وارڈ میں ہونے والے خونی حملے کا الزام لگایا گیا تھا جس میں ماؤں سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پاکستان کا اظہار مذمت

پاکستان نے کابل میں دہشت گردی کے تین حملوں کی شدید مذمت کی، جس کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور کئی معصوم افراد زخمی ہوئے۔

دفترخارجہ سے جاری مذمتی بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام ان حملوں میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے اظہار تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے اور اس دکھ کی گھڑی میں ہم اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

دفترخارجہ نے کہا کہ یہ اہم ہے کہ افغانستان اور عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Kashif Apr 20, 2022 12:42am
طالبان، پہلے ہزارہ برادری کی اسلامی شناخت کو تسلیم کروانے کے لییے انہیں مرکز میں قابل ذکر عہدوں پر تعینات کرے ، جیسا کہ شرعی عدالتوں ، حج کے انتظامی سربراہی وغیرہ۔