امام بارگاہ کے نگراں کے قتل میں ملوث مجرم کو عمر قید کی سزا

اپ ڈیٹ 02 مئ 2022
انسداد دہشتگردی کی عدالت نے فرقہ ورانہ قتل کے مقدمات میں ملزم کو عمر قید سزا سنائی — فائل فوٹو: اے ایف پی
انسداد دہشتگردی کی عدالت نے فرقہ ورانہ قتل کے مقدمات میں ملزم کو عمر قید سزا سنائی — فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 2012 کے فرقہ ورانہ قتل میں ملوث ایک شخص کو دو مقدمات میں عمر قید کی سزا سنا دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کی جس نے فریقین کے شواہد اور حتمی دلائل کے بعد اپنا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس اے ٹی سی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے یا نہیں، فیصلہ محفوظ

عدالت نے مشتاق شاہ عرف شاہ جی پر دو امام بارگاہوں کے نگران سید اطہر حسین کو قتل اور ان کے چھوٹے بھائی سید مظہر حسین کو شاہ لطیف ٹاؤن پولیس اسٹیشن کی حدود میں زخمی کرنے کا جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی۔

عدالت نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مقتول اطہر حسین دو امام بارگاہوں کے نگراں تھے جن کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ فرقہ واریت پھیلانے کے سوا کچھ اور نہیں تھی۔

عدالت نے مجرم کو منصوبہ بندی کے تحت قتل اور دہشت گردی کے مقدمے میں عمر قید سزا سنائی۔

تاہم عدالت نے شریک ملزم وقاص عرف بسرا کو مقدمے میں شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پی پی پی اراکین اسمبلی سمیت 14 ملزمان کے خلاف چالان پر فیصلہ محفوظ

سرکاری وکیل طاہر حسین منگی اور کامران نے عدالت کو بتایا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے شناختی پریڈ کے دوران چشم دید گواہ نے ملزم کی شناخت کی تھی، جو کہ اس مقدمہ میں شکایت کنندہ بھی ہیں، جس میں ملزم مشتاق شاہ نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ مقتول اور اس کے بھائی پر 29 دسمبر 2012 کو فائرنگ کرکے انہیں قتل کردیا تھا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جب مقتول سید اطہر شاہ گرین ٹاؤن سے اپنی گاڑی میں واپس آرہے تھے تو اس وقت انہیں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔

استغاثہ کا مؤقف تھا کہ دو موٹرسائیکلوں پر سوار چار نامعلوم مسلح افراد اچانک وہاں سے آئے اور گاڑی میں سوار افراد پر پستول سے اندھا دھند فائرنگ کی اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

تاہم ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت ریکارڈ کیے گئے اپنے بیان میں ملزم نے واقعے میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ 9 ایم ایم پستول کی برآمدگی سے بھی انکار کیا اور کہا کہ اس کا انتظام پراسیکیوشن نے کیا کیونکہ اس کے قبضے سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا، تاہم وہ اپنے دفاع میں کوئی گواہ پیش کرنے میں ناکام رہا۔

یہ بھی پڑھیں: انسداد دہشت گردی عدالت: منظور پشتین 4 ساتھیوں سمیت اشتہاری قرار

ملزم نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس کو 28 فروری 2012 کو گھر سے گرفتار کیا تھا مگر اس کی گرفتاری 2014 میں ظاہر کی گئی تھی، انہوں نے مزید کہا کہ وہ مختلف عدالتوں میں سوائے ایک مقدمے کہ دیگر مقدمات میں بھی بری ہوچکا ہے۔

مقتول کے بھائی سید رضوان حسین کی شکایت پر ملزم کے خلاف شاہ لطیف پولیس اسٹیشن میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 324، 427 ، 379 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں