’چڑیل‘ ہونے کے الزام میں سزا پانی والی خاتون کی 329 سال بعد مقدمے سے بریت

اپ ڈیٹ 28 مئ 2022
میساچوٹس میں خواتین کو چڑیل کے الزام میں پھانسی دیے جانے کے مقام پر یادگار اب بھی موجود ہے—فوٹو: اے پی
میساچوٹس میں خواتین کو چڑیل کے الزام میں پھانسی دیے جانے کے مقام پر یادگار اب بھی موجود ہے—فوٹو: اے پی

امریکی قانون سازوں نے ایک منفرد قانون بناکر تقریباً ساڑھے تین صدیاں قبل ’چڑیل‘ ہونے کے الزام میں موت کی سزا پانی خاتون کو بری کردیا۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق امریکی ریاست میساچوسٹس میں 1693 میں ’سلیم وچ ٹرائل‘ میں سزائے موت پانی والی ایک خاتون کے لیے قانون سازی کرکے ان کی سزا معاف کرکے انہیں مقدمے سے بری کیا گیا۔

مذکورہ خاتون کو اس وقت کے قانون کے مطابق میساچوسٹس کی ریاست میں ’چڑیل‘ ہونے کے شبے میں دیگر خواتین کے ہمراہ سزائے موت سنائی گئی تھی۔

مذکورہ کیس ’سلیم وِچ ٹرائل‘ کے نام سے مشہور ہے، جس میں کم از کم اس وقت 100 کے قریب مرد و خواتین کو ’چڑیل‘ ہونے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔

اس وقت کے دور میں بدصورت لوگوں کو ’چڑیل‘ سمجھا جاتا تھا اور یورپ سمیت امریکا میں ایسے لوگوں کو الزامات لگاکر عدالتوں یا بادشاہوں سے سزائیں دلوائے جانے کا عمل عام تھا۔

اسی رواج کے تحت میساچوسٹس کی بادشاہت نے اس وقت 1692 سے 1693 تک 100 افراد کو سزائیں سنائی تھیں، جن میں سے 3 درجن کے قریب افراد کو سزائے موت دی گئی تھی۔

اسی ٹرائل کے تحت کم از کم ڈیڑھ درجن خواتین اور مرد حضرات کو اجتماعی سزائے موت بھی دی گئی تھی اور میساچوسٹس میں آج بھی ’سلیم وچ‘ کی یادگار موجود ہے، جہاں بیک وقت نصف درجن خواتین کو پھانسی پر لٹکایا بھی گیا تھا۔

تقریباً ساڑھے تین سو سال قبل ’چڑیل‘ ہونے کے الزام میں سزا پانی والی خواتین میں الزبتھ جانسن جونیئر بھی شامل تھیں جو اس وقت 22 سال کی تھیں اور انہیں بھی ’چڑیل‘ قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی تھی۔

ان کے ساتھ سزا پانے والی خواتین اور مرد حضرات میں سے کچھ کو پھانسی اور بعض افراد کو پتھر مار کر ہلاک کیا گیا تھا جب کہ بعض افراد اس وقت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر چل بسے تھے اور ریاست نے انہیں علاج کی سہولیات فراہم نہیں کی تھیں۔

تاہم الزبتھ جانسن جونیئر کو اس وقت نہ تو سزائے موت دی گئی تھی اور نہ ہی ان کی اپیلوں کے باوجود انہیں معاف کیا گیا تھا بلکہ وہ مرتے دم تک مجرم رہی تھیں۔

مگر انہیں حال ہی میں ایک طالب علم کی جانب سے ’سلیم وچ ٹرائل‘ پر تحقیق کیے جانے کے بعد خصوصی قانون سازی کے ذریعے معاف کردیا گیا۔

اے پی کے مطابق امریکی ریاست میساچوسٹس کےمقامی علاقے کے ریاستی قانون ساز نے الزبتھ جانسن کو بے قصور ثابت کرنے اور انہیں معاف کروانے کے لیے خصوصی قانون سازی کروائی، جس میں 1692 کے فیصلوں کو غلط قرار دیا گیا اور یوں خاتون کو تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد مقدمے سے بریت ملی۔

تبصرے (0) بند ہیں