امریکی سپریم کورٹ نے اسکول کے احاطے میں عبادت کی اجازت دے دی

28 جون 2022
پہلی ترمیم کی اسٹیبلشمنٹ شق حکومت کو ’مذہب کے قیام کا احترام‘ کے لیے کوئی بھی قانون بنانے سے منع کرتی ہے — فوٹو: اے ایف پی
پہلی ترمیم کی اسٹیبلشمنٹ شق حکومت کو ’مذہب کے قیام کا احترام‘ کے لیے کوئی بھی قانون بنانے سے منع کرتی ہے — فوٹو: اے ایف پی

امریکی سپریم کورٹ کے ججوں نے پیر کو آئینی ترمیم کی دوبارہ تشریح کردی، یہ ترمیم سرکاری اہلکاروں کو کام کی جگہ پر عوامی طور پر اپنے عقیدے کا اظہار کرنے سے روکتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسئلہ یہ تھا کہ کیا سرکاری اسکول کا ملازم عبادت کر سکتا ہے؟ لیکن طلبہ کے خیال میں یہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کی خلاف ورزی ہے، جو حکومت اور اس کے ملازمین کو اپنی مذہبی ترجیحات کو عوامی طور پر ظاہر کرنے سے روکتی ہے۔

اس شق میں ان حکومتی اقدامات پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جو ایک مذہب کو دوسرے مذہب پر ترجیح دیتے ہیں۔ سرکاری ملازم کا سرکاری املاک میں عبادت کرنا بھی اس شق کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔

جسٹس نیل گورسچ، جنہوں نے کینیڈی بمقابلہ بریمرٹن اسکول ڈسٹرکٹ کے نام سے مشہور کیس میں اکثریت کی رائے لکھی، انہوں نے اس تشریح سے اختلاف کیا۔

انہوں نے لکھا کہ ’آئین اور ہماری روایات باہمی احترام اور رواداری کا مشورہ دیتی ہیں، نہ کہ مذہبی اور غیر مذہبی خیالات کے لیے سنسر شپ اور دباؤ کا۔‘

واشنگٹن ہائی اسکول کے سابق فٹ بال کوچ جوزف کینیڈی نے یہ مقدمہ اس وقت دائر کیا جب وہ کھیلوں کے بعد 50 گز کی لائن پر عبادت کرنے کی وجہ سے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

ریاست واشنگٹن کے بریمرٹن اسکول ڈسٹرکٹ نے ان کے اس اقدام کو پہلی ترمیم کی خلاف ورزی سے تشبیہ دی اور انہیں برطرف کر دیا۔

6-3 کے تناسب سے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پہلی ترمیم کی آزادانہ استعمال اور اظہار رائے کی آزادی کی شقیں مذہبی عقائد کا اظہار کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

امریکی میڈیا کا کہنا تھا کہ امریکی عدالت اس معاملے پر نظریاتی طور پر تقسیم ہے۔ ججز کی اکثریت یعنی 6 ججز نے استاد کے عمل کی حمایت کی جبکہ 3 ججز نے رائے دی کہ انہوں نے اسکول کے احاطے میں عوامی طور پر مذہبی عبادت کرکے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔

لبرل اقلیت کی رائے کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس سونیا سوٹومائیر نے لکھا کہ آئین، سرکاری اسکولوں کو کینیڈی کے طرز عمل کو قبول کرنے کا اختیار نہیں دیتا، انہوں نے مزید کہا کہ اکثریت کی رائے مذہب کے حوالے سے حکومتی توثیق پر ’دیرینہ خدشات‘ کو مسترد کرتی ہے۔

جسٹس نیل گورسچ نے مشاہدہ کیا کہ اسکول ڈسٹرکٹ نے استاد کو ذاتی اور مختصر مذہبی عمل میں مشغول ہونے پر سزا دینے کی کوشش کی، حالانہ پہلی ترمیم کی آزادانہ استعمال اور اظہار رائے کی آزادی کی شقوں کے تحت اسے تحفظ حاصل ہے۔

تین آزاد خیال ججز سونیا سوٹومائیر، اسٹیفن بریئر اور ایلینا کیگن نے لکھا کہ عہدیدار کی قیادت میں عبادت طلبہ اور ان کے والدین کی مذہبی آزادی کے آئینی تحفظ کی بنیاد پر حملہ کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثریت کی رائے نے مختلف راستہ اپنایا ہے، پھر بھی انفرادی مذہبی آزادی کے لیے شق کے تحفظ پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے مذہب کے ریاستی قیام پر اسٹیبلشمنٹ کی شق کی ممانعت کرتے ہیں۔

تاہم جسٹس نیل گورسچ نے لبرل تشریح سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کا ’آئین اس قسم کے امتیاز کو نہ تو کوئی مینڈیٹ دیتا ہے اور نہ ہی برداشت کرتا ہے۔‘

امریکی یونائیٹڈ فار سیپریشن آف چرچ اینڈ اسٹیٹ کے صدر اور سی ای او ریچل لیزر نے ’سی بی ایس نیوز‘ کو بتایا کہ یہ حکم نسلوں میں ’مذہبی آزادی کے بڑے نقصان کی نمائندگی کرتا ہے۔‘

تبصرے (0) بند ہیں