صحافی شیریں ابو عاقلہ غیر ارادی طور پر اسرائیلی گولی سے جاں بحق ہوئیں، امریکا

اپ ڈیٹ 05 جولائ 2022
اہل خانہ کا کہنا تھا کہ یہ ناقابل یقین ہے کہ اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا کہ وہ گولی کس بندوق سے چلائی گی— فوٹو رائٹرز
اہل خانہ کا کہنا تھا کہ یہ ناقابل یقین ہے کہ اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا کہ وہ گولی کس بندوق سے چلائی گی— فوٹو رائٹرز

امریکا اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ ممکنہ طور پر اسرائیلی فائرنگ سے جاں بحق ہوئیں جس کا احتساب کیا جانا چاہیے، لیکن انہیں جان بوجھ کر نشانہ نہیں بنایا گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق امریکا نے کہا ہے کہ وہ 11 مئی کو صحافی کو مارنے والی گولی کی حقیقت کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے۔

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے جاری ایک بیان میں کہا کہ بیلسٹک ماہرین نے بتایا کہ گولی بری طرح خراب ہوچکی تھی جس کی وجہ سے واضح نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکا۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی حکام کی جانب سے دی جانے والی گولی کا تفصیل کے ساتھ فارنزیک تجزیہ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی شیریں ابو عاقلہ اسرائیلی فوج کی گولی سے جاں بحق ہوئیں، اقوام متحدہ

شیریں ابو عاقلہ کا شمار فلسطین کے بہترین صحافیوں میں ہوتا تھا، ان کے پاس امریکا کی شہریت بھی تھی، وہ 11 مئی کو جنین شہر میں اسرائیلی فوج کے آپریشن کی کوریج کرتے ہوئے جاں بحق ہو گئی تھیں، انہوں نے جیکٹ اور ہیلمنٹ پہنا ہوا تھا جس پر 'پریس' لکھا ہوا تھا۔

ان کی ہلاکت نے ہنگامہ برپا کر دیا تھا، فلسطینی حکام نے الزام لگایا تھا کہ انہیں جان بوجھ کر گولی ماری گئی، جو کہ جنگی جرم تھا جبکہ اسرائیل نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

امریکی سیکیورٹی کوآرڈینیٹر (یو ایس ایس سی) جو فلسطینی حکام کو اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی کے حوالے سے رابطے میں براہ راست مدد کرتا ہے، نے کہا کہ دونوں فریقوں نے گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران تحقیقات کے لیے مکمل رسائی دی۔

امریکی محکمہ خارجہ نے بتایا کہ یو ایس ایس سی دونوں تحقیقات کا تجزیہ کرکے اس نتیجے پر پہنچا کہ اسرائیلی دفاعی فورسز کی جانب سے کیے گئے فائر کی وجہ سے شیریں ابو عاقلہ کی موت واقع ہوئی۔

مزید پڑھیں: صحافی شیریں ابو عاقلہ اسرائیلی فوج کی گولی سے قتل ہوئیں، فلسطینی حکام

مزید بتایا گیا کہ یو ایس ایس سی کو ایسی کوئی وجہ نہیں ملی جس سے یقین کیا جائے کہ گولی جان بوجھ کر چلائی گئی، یہ المناک واقعہ اسرائیلی دفاعی فوج کی جانب سے فلسطینی اسلامی جہاد کے دھڑوں کے خلاف آپریشن کے دوران پیش آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ رابطے میں ہیں اور زور دیتے ہیں کہ اگلے مرحلے میں احتساب کیا جانا چاہیے، ہم ایک بار پھر شیریں ابو عاقلہ کے اہل خانہ سے گہری تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔

اہل خانہ کے لیے ناقابل یقین

شیریں ابو عاقلہ کے اہل خانہ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ یہ ناقابل یقین ہے کہ اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا کہ وہ گولی کس بندوق سے چلائی گی جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم شیریں ابو عاقلہ کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے رہیں گے اور اسرائیلی فوج اور حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹہرائیں، اس حقیقت کو چھپانے کی کوششوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ 11 مئی کو کیا ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی پولیس کا الجزیرہ کی مقتول صحافی کے جنازے میں شریک سوگواروں پر حملہ

ٹوئٹر پر جاری پیغام میں فلسطین کے سینئر حکام حسین الشیخ نے کہا کہ ہم شیریں ابو عاقلہ کی موت کی وجہ کو چھپانے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہیں۔

فلسطین کے اٹارنی جنرل اکرم الخطیب نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ گولی اسرائیل کے نہیں بلکہ امریکی فارنزیک ماہرین کے حوالے اس شرط پر کی گئی تھی کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی اور واپس کر دیا جائے گا۔

اسرائیلی تحقیقات جاری ہیں

اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گانٹز نے کہا کہ فائرنگ کے ذریعے کا تعین کرنا ناممکن ہے، تحقیقات اسی طرح جاری رہیں گی۔

شیریں ابو عاقلہ کی موت کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا تھا، ڈنڈا بردار اسرائیلی پولیس ان کے جنازے کے دوران سوگواروں پر چڑھ دوڑی، فلسطینی جھنڈوں پر قبضہ کیا، لوگوں کی کوشش تھی کہ ان کا تابوت نہ گرے، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیل کے طاقت کے استعمال کی مذمت کی تھی۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے الجزیرہ کی خاتون صحافی جاں بحق

سی این این کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ شیریں ابو عاقلہ کو بظاہر اسرائیلی فورسز نے نشانہ بنایا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی تحقیقات میں بتایا کہ گولی اس مقام سے چلائی گئی جہاں اسرائیلی فوجی قافلے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں