صحافی عمران ریاض کو دوبارہ آج ہی اٹک کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 07 جولائ 2022
صحافی عمران ریاض خان نے معزز جج سے مکالمہ کیا کہ مجھے اندازہ تھا کہ میں گرفتار ہوں گا— تصویر: ٹوئٹر
صحافی عمران ریاض خان نے معزز جج سے مکالمہ کیا کہ مجھے اندازہ تھا کہ میں گرفتار ہوں گا— تصویر: ٹوئٹر

راولپنڈی جوڈیشل کمپلیکس کے اسپیشل مجسٹریٹ پرویز خان نے صحافی عمران ریاض کو دوبارہ آج ہی اٹک کی مقامی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ایف آئی اے کی دفعات بھی ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔

صحافی عمران ریاض خان کو جوڈیشل مجسٹریٹ پرویز خان کی عدالت میں پیش کیا گیا، کمرہ عدالت میں وکلا کی بڑی تعداد موجود تھی۔

اسپیشل مجسٹریٹ پرویز خان نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس میری عدالت میں نہیں بنتا، میں ایف آئی اے کا جج ہوں، جس پر عمران ریاض خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمران ریاض کے اسلحہ کے لائسنس اور بلٹ پروف گاڑی کا لائسنس کینسل کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی عمران ریاض خان 'بغاوت' کے مقدمے میں گرفتار

انہوں نے مزید کہا کہ ایک ماہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران ریاض خان کی حفاظتی ضمانت منظور کی تھی لیکن گزشتہ رات ان کو اسلام آباد ٹول پلازہ پر اٹک پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے عدالت کو بتایا کہ رات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی تھی جبکہ آج صبح ان کو اٹک کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

انہوں نے دلائل دیے کہ اسلام آباد ٹول پلازہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی بارڈر لائن ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ اٹک میں کیس کے دوران معزز جج نے سوال کیا کہ پیکا دفعات ہیں، ایف آئی آر میں کیس کیسے سن سکتا ہوں، میاں علی اشفاق نے عدالت کو بتایا کہ معزز جج نے اٹک پولیس سے پوچھا کہ آپ کیسے یہ دفعات لگا سکتے ہیں۔

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملک مرید عباس فوج کا ترجمان کہاں سے بن گیا؟ فوج کے حقوق کا محافظ بن کر یہ مشکوک شخص کیسے ایف آئی آر کرا سکتا ہے؟

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: صحافی عمران ریاض خان کے خلاف درج مقدمات کا مکمل ریکارڈ طلب

ان کا کہنا تھا کہ ‏فوج کی پالیسیز پر سوال اٹھانا ملک دشمنی ہرگز نہیں، ‏اگر فوج کو عمران ریاض خان سے مسئلہ تھا تو وہ خود ایف آئی آر کراتے جیسے ایمان مزاری کے خلاف کرائی۔

عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے کہا کہ مدعی ملک مرید آئی ایس پی آر یا فوج کا نمائندہ نہیں ہے۔

جج نے پولیس سے استفسار کیا کہ ‏میرے پاس عمران ریاض خان کو کیسے پیش کیا جا سکتا ہے، انہوں نے ریمارکس دیے کہ میرے پاس اس ایف آئی آر پر پیش ہی نہیں کر سکتے میں کیسے سنوں؟

عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے جواب دیا کہ اٹک کی عدالت نے یہاں بھیجا کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ہے جو اس کیس کو آگے لے کر جانا چاہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بول نیوز کے اینکر سمیع ابراہیم کے خلاف 'ریاست مخالف' نشریات پر تحقیقات کا آغاز

صحافی عمران ریاض خان نے معزز جج سے مکالمہ کیا کہ مجھے اندازہ تھا کہ میں گرفتار ہوں گا۔

عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران ریاض خان کا مقدمہ خارج کیا جائے۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران ریاض کو دوبارہ آج ہی اٹک عدالت پیش کرنے اور ایف آئی اے کی دفعات ختم کرنے کا حکم دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس میرے دائرہ اختیار میں نہیں آتا لہٰذا آج ہی اٹک کی مقامی عدالت میں پیش کریں۔

قبل ازیں صحافی عمران ریاض خان کی راولپنڈی جوڈیشل کمپلیکس پیشی کے حوالے سے پولیس کی بھاری نفری راولپنڈی جوڈیشل کمپلیکس پر موجود تھی، راولپنڈی جوڈیشل کمپلیکس کے باہر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ میڈیا کو راولپنڈی جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: 'ریاستی اداروں' پر مبینہ تنقید، سینئر صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج

واضح رہے کہ آج صبح اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی اور اینکر عمران ریاض کی گرفتاری کو اپنے دائرہ کار کی حدود سے باہر قرار دیتے ہوئے درخواست نمٹادی تھی۔

اسلام آباد کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اینکر کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رات کو رپورٹ آئی کہ عمران ریاض کو پنجاب سے گرفتار کیا گیا ہے۔

وکیل نے کہا کہ عمران ریاض نے مجھے فون کر بتایا کہ وہ اسلام آباد ٹول پلازہ پر ہیں، ان کی گرفتاری اسلام آباد کی حدود سے ہوئی ہے۔

وکیل نے مزید کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں پولیس نے 17 مقدمات درج ہونے کی رپورٹ دی لیکن عدالت کو رات کی ایف آئی آر سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا، یہ چھپائی گئی، میں نے لاہور ہائی کورٹ میں الگ سے توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہر عدالت کا اپنا دائرہ اختیار ہے، لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے، عمران ریاض خان کی گرفتاری اٹک میں ہوئی جو اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا، یہ کورٹ پنجاب کی تفتیش تو نہیں کر سکتی۔

وکیل نے کہا کہ اس عدالت نے گرفتار کرنے کے حوالے سے واضح احکامات دیے تھے ان کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فوج، عدلیہ کے خلاف 'نفرت انگیز' مواد نشر کرنے پر ٹی وی چینلز کو تنبیہ

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت نے اسلام آباد سے گرفتاری کی بات کی تھی، اب یہ گرفتاری ہمارے دائرہ اختیار کے باہر سے ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد پولیس نے عمران ریاض خان کی گرفتاری نہیں کی، پنجاب پولیس نے کی ہے، ہم اس کیس میں کوئی آبزرویشن نہیں دے رہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ کہے کہ اسلام آباد سے گرفتاری ہوئی ہے تو وہ آرڈر اس عدالت کے سامنے لے آیئے گا۔

وکیل نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کہہ رہی ہے گرفتاری پنجاب سے ہوئی جبکہ ہم کہہ رہے ہیں اسلام آباد کی حدود سے گرفتار کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ آپ کے مفاد میں ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کریں، ساتھ ہی درخواست نمٹا دی۔

عمران ریاض کی گرفتاری

خیال رہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب صحافی عمران ریاض خان کو اسلام آباد جاتے ہوئے اٹک میں درج بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

عمران ریاض خان کے وکیل میاں علی اشفاق بتایا تھا کہ عمران ریاض خان کے خلاف پنجاب بھر میں 17 بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے مؤکل کو اسلام آباد کی حدود سے گرفتار کیا گیا جو ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے، اس کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر رہے ہیں۔

بعد ازاں رات گئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران ریاض خان کی گرفتاری پر دائر توہین عدالت کی درخواست پر آئی جی اسلام آباد کی جانب سے مجاز افسر کو صبح 10 بجے طلب کر لیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں