سری لنکا میں مشتعل مظاہرین کا صدر کی رہائش گاہ پر دھاوا، صدر کا استعفے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 10 جولائ 2022
مظاہرین نے استعفے کے اعلان کے بعد جشن منایا—تصویر:رائٹرز
مظاہرین نے استعفے کے اعلان کے بعد جشن منایا—تصویر:رائٹرز
صدر کو احتجاج سے قبل حفاظت کے پیش نظر جمعہ کو سرکاری رہائش گاہ سے لے جایا گیا تھا—تصویر:رائٹرز
صدر کو احتجاج سے قبل حفاظت کے پیش نظر جمعہ کو سرکاری رہائش گاہ سے لے جایا گیا تھا—تصویر:رائٹرز

سری لنکا میں عوام کا شدید احتجاج اور صدر گوٹابایا راجا پکسے کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بولنے کے بعد پارلیمنٹ کے اسپیکر نے کہا ہے کہ صدر اگلے ہفتے بدھ کو مستعفی ہوجائیں گے۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے صدر کی جانب سے یہ اعلان ملک میں جاری معاشی بحران پر پرامن احتجاج کے بعد ڈرامائی انداز میں ہونے والے پرتشدد احتجاج کے بعد کیا گیا ہے۔

اسپیکر مہیندا یاپا ابیواردینا نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ صدر گوٹابایا راجا پکسے نے اطلاع دی ہے کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 13 جولائی کو استعفے کے فیصلے کا مقصد پرامن انتقال اقتدار یقینی بنانا ہے، میں عوام سے درخوست کرتا ہوں کہ قانون کا احترام کریں اور امن قائم رکھیں۔

صدر کے استعفے کا اعلان ہوتے ہیں کولمبو کے مختلف علاقوں میں جشن منایا گیا اور آتش بازی کی گئی۔

وزیراعظم کی استعفے کی پیش کش

اس سے قبل وزیراعظم رانیل وکرمے سنگھے نے بھی پیش کش کی تھی کہ وہ کل جماعتی حکومت کے لیے راہ ہموار کرنے کی خاطر استعفے کے لیے تیار ہیں۔

دوسری جانب فوج اور پولیس اہلکار صدر راجا پکسے کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے میں ناکام رہے تھے، مظاہرین صدر پر الزام لگا رہے تھے کہ 7 دہائیوں کے بدترین بحران کے وہ ذمہ دار ہیں۔

مظاہرین کی جانب سے جب حملہ کیا گیا تو صدر راجا پکسے اور وزیراعظم رنیل وکرما سنگھے دونوں اپنی سرکاری رہائش گاہوں میں موجود نہیں تھے۔

مظاہرین کا صدر کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا

قبل ازیں سری لنکا کے تجارتی مرکز اور دارالحکومت کولمبو میں ہزاروں مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر صدر کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا تھا۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مقامی ٹی وی نیوز نیوز فرسٹ چینل کی ویڈیو فوٹیج میں مظاہرین کو سری لنکا کے جھنڈے اور ہیلمٹ تھامے صدر کی رہائش گاہ میں گھستے ہوئے دیکھے گئے۔

اس ضمن میں وزارت دفاع کے ذرائع نے بتایا کہ صدر گوٹابایا راجا پاکسا کو ہفتے کے روز منصوبہ بندی کے تحت نکالی گئی ریلی سے قبل ان کی حفاظت کے پیش نظر جمعہ کو سرکاری رہائش گاہ سے لے جایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بحران کے شکار سری لنکا میں اسکول بند، ایندھن کی بچت کے لیے گھر سے کام کرنے پر زور

صدر کے گھر کے اندر سے ایک فیس بک لائیو اسٹریم میں سیکڑوں مظاہرین کو دیکھا گیا، جن میں سے کچھ جھنڈوں میں لپٹے ہوئے، کمروں اور راہداریوں میں جمع ہو کر گوٹابایا راجا پاکسا کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

نوآبادیاتی دور کی سفید عمارت کے باہر بھی سیکڑوں لوگ زمین پر جمع ہوئے جہاں کوئی سیکیورٹی اہلکار نظر نہیں آیا۔

ہسپتال کے ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ جاری مظاہروں میں دو پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 21 زخمی افراد زخمی ہسپتال میں داخل ہوئے۔

2 کروڑ 20 لاکھ نفوس پر مشتمل یہ جزیرہ غیر ملکی زرمبادلہ کی شدید قلت سے نبرد آزما ہے جس کے باعث ایندھن، خوراک اور ادویات کی ضروری درآمدات محدود ہیں، اور 1948 میں آزادی کے بعد سے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔

بہت سے لوگ ملک کے زوال کا ذمہ دار صدر گوٹابایا راجا پاکسا کو ٹھہراتے ہیں اور مارچ سے جاری احتجاج میں ان کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سری لنکا روس سے سستا ایندھن خریدنے کی کوششوں میں مصروف

رائٹرز کو ایک عینی شاہد نے بتایا کہ کولمبو کے سرکاری ضلع میں ہزاروں افراد نے صدر کے خلاف نعرے لگائے اور راجا پاکسا کی رہائش گاہ تک پہنچنے کے لیے پولیس کی کئی رکاوٹیں توڑ دیں۔

عینی شاہد نے بتایا کہ پولیس نے ہوائی فائرنگ کی لیکن وہ مشتعل ہجوم کو صدارتی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے سے روکنے میں ناکام رہے۔ رائٹرز کو فوری طور پر صدر کے ٹھکانے کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

ایندھن کی شدید قلت کے باوجود مظاہرین ملک کے کئی حصوں سے بسوں، ٹرینوں اور ٹرکوں میں بھرے ہوئے کولمبو پہنچے تا کہ انہیں معاشی تباہی سے بچانے میں حکومت کی ناکامی کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔

حالیہ ہفتوں کے دوران عوام میں عدم اطمینان مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ نقدی کی کمی کے شکار ملک کو ایندھن کی وصولی رک گئی ہے، جس کے باعث اسکول بند کرنے اور ضروری خدمات کے لیے پیٹرول اور ڈیزل ذخیرہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکا میں تاریخ کا بد ترین معاشی بحران

احتجاج میں شامل ایک 37 سالہ ماہی گیر سمپت پریرا نے کہا کہ ہم نے بار بار گوٹابایا کو عہدے سے ہٹنے کو کہا ہے لیکن وہ اب بھی اقتدار سے چمٹا ہوئے ہیں، ہم اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک وہ ہماری بات نہیں سنتے۔

سیاسی عدم استحکام بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ سری لنکا کے مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتا ہے جس میں3 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ، کچھ غیر ملکی قرضوں کی تنظیم نو اور ڈالر کی قحط کو کم کرنے کے لیے کثیر اور دو طرفہ ذرائع سے فنڈ اکٹھا کرنا شامل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں