'ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے پر غیر واضح صورتحال کے پیچھے سپریم کورٹ کا سابقہ فیصلہ ہے'

اپ ڈیٹ 26 جولائ 2022
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری— فائل فوٹو: فیس بک
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری— فائل فوٹو: فیس بک

سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی حکمراں اتحاد کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد قانونی ماہرین کی آرا اس بات پر منقسم اور مختلف نظر آئیں کہ اس معاملے کو مزید غور سے جانچنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متعدد قانونی ماہرین نے رائے دی کہ ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کو خطرات سے دوچار کرنے والے بحران سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر کردہ صدارتی ریفرنس میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے جس میں اس نے کہا تھا کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے۔

نجی چینل 'سما ٹی وی' سے گفتگو کرتے ہوئے معروف قانون دان سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے قانون سازوں کے ووٹوں کو شمار نہ کرنے کا حکم نہیں دیتی تو موجودہ بحران پیدا ہی نہ ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ(ق) کے ووٹ مسترد، حمزہ شہباز دوبارہ پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب

فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی کی درخواستوں کا حوالہ دیتے ہوئے سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ عدالت اپنے فیصلے پر نظرثانی کر تو سکتی ہے لیکن نظرثانی کے امکانات بہت کم ہیں، کیونکہ جن ججوں نے پہلے فیصلہ جاری کیا تھا وہ جج نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کریں گے۔

اسی طرح کے خیالات اور رائے کا اظہار جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی نے بھی کیا، انہوں نے کہا کہ عدالت کو چاہیے کہ وہ زیر بحث آرٹیکل کی اپنی تشریح پر نظرثانی کرے اور فیصلے سے پیدا ہونے والی پچیدہ اور گنجلک صورتحال کو دور کرے۔

نجی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے بات کرتے ہوئے انہوں نے عدالت کو مشورہ دیا کہ وہ نظرثانی کی درخواستوں اور پی ٹی آئی کے 20 ڈی سیٹ ایم پی ایز کی جانب سے دائر درخواستوں کو یکجا کرے اور درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستیں مسترد کردیں

پیپلز پارٹی کے رہنما اور معروف قانون دان سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے کردار کو آرٹیکل 63اے میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

انہوں نے صدارتی ریفرنس میں عدالت عظمیٰ کے 2-3 کے فیصلے کو آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر دوست محد مزاری نے فیصلے کی تشریح میں غلطی کی جبکہ انہوں نے رن آف الیکشن کے دوران ان ووٹوں کو مسترد کیا۔

'فل کورٹ کی ضرورت نہیں'

ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے قانونی ماہر اسد رحیم نے کہا کہ زیر بحت کیس فل کورٹ بینچ کے قابل نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب: چوہدری شجاعت، جے یو آئی، پیپلز پارٹی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست

انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ کیس میں کوئی متنازع یا کیس عدالتی نظیر کا تضاد نہیں ہے، نہ ہی یہ کوئی پیچیدہ آئینی سوال اور قانونی بحران ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ زیر بحث کیس میں صرف جس نکتے کا فیصلہ کیا جانا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کا مسلم لیگ (ق) کے ارکان کے ڈالے گئے ووٹوں کو مسترد کرنے کا حکم قانونی تھا یا نہیں۔

سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ بیرسٹر عابد زبیری نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہر فریق کو فل کورٹ بینچ کی تشکیل کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے لیکن بینچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کو حاصل ہے۔

'بائیکاٹ سے کیس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا'

عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کے معاملے پر جیسا کہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران اشارہ کیا، بیرسٹر عابد زبیری نے کہا کہ بائیکاٹ کے فیصلے سے عدالت کو کسی قسم کی کوئی پریشانی محسوس نہیں ہوگی اور وہ کیس کا فیصلہ کرے گی۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز پیر تک بطور 'ٹرسٹی' وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے، سپریم کورٹ

ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اسے صرف حقائق کا جائزہ لینا ہے اور فیصلہ کرنا ہے کہ کیا دوست مزاری کا فیصلہ 17 جون کے فیصلے کی روشنی میں تھا۔

پی ٹی آئی کے سابق رہنما اور قانونی ماہر حامد خان نے 'اے آر وائی نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکمران اتحاد کے ارکان نے عدلیہ کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ نامناسب اور ججوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔

انہوں نے عدالت کو مشورہ دیا کہ وہ "دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے میرٹ پر کیس کا فیصلہ کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں