وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب: چوہدری شجاعت، جے یو آئی، پیپلز پارٹی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست

اپ ڈیٹ 25 جولائ 2022
سپریم کورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے سلسلے میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوگی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے سلسلے میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوگی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

جمعیت علمائے اسلام (ف)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی۔

یاد رہے کہ 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے سلسلے میں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی جانب سے چوہدری پرویز الہٰی کے حق میں ڈالے گئے 10 ووٹس مسترد کردیے تھے۔

انہوں نے رولنگ دی تھی کہ مذکورہ ووٹس پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈالے گئے، جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز ایک مرتبہ پھر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز پیر تک بطور 'ٹرسٹی' وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے، سپریم کورٹ

تاہم مسلم لیگ (ق) کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے، تاہم عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد جاری حکم نامے میں کہا تھا کہ حمزہ شہباز آئین اور قانون کے مطابق کام کریں گے اور بطور وزیر اعلیٰ وہ اختیارات استعمال نہیں کریں گے، جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔

مزید پڑھیں: 'عدالتی فیصلے کو غلط سمجھا گیا'، حمزہ شہباز کی کامیابی پر قانونی ماہرین کی رائے

تاہم آج سماعت کے آغاز سے قبل جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پیپلز پارٹی نے مذکورہ کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی۔

جے یو آئی (ٖف) نے اپنے وکیل کامران مرتضیٰ، پیپلز پارٹی نے فاروق ایچ نائیک اور چوہدری شجاعت نے وکیل صلاح الدین علی کے توسط سے درخواست دائر کی۔

جے یو آئی (ف) کی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ چیف جسٹس موجودہ کیس میں ابہامات دور کرنے کے لیے فل کورٹ تشکیل دیں، آرٹیکل 63 اے سے متعلق کیس کا فیصلہ 3 رکنی بینچ اکیلے نہیں کر سکتا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ عدالت نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو طلب کر کے ان کے عہدے کی تضحیک کی، جمعیت علمائے اسلام (ف) ایک بڑی جماعت کے طور پر خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتی، لہٰذا کیس میں فریق بنانے کی درخواست منظور کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: معاملہ شجاعت، زرداری اور پرویز الٰہی کا: کب اور کیا کچھ ہوا؟

مسلم لیگ (ق) اور اس کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ تمام اراکین صوبائی اسمبلی کو حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ دینے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں اور اس حوالے سے ڈپٹی اسپیکر کو خط بھی ارسال کیا گیا لیکن احکامات کے برعکس ایم پی ایز نے پرویز الٰہی کے حق میں ووٹ ڈالے تھے جنہیں ڈپٹی اسپیکر نے مسترد کردیا تھا۔

علاوہ ازیں پیپلز پارٹی نے اپنی درخواست میں کہا کہ چونکہ اس کے 7 ایم پی ایز نے دوبارہ انتخاب میں حمزہ کو ووٹ دیا تھا، اس لیے درخواست پر عدالت کے فیصلے سے پارٹی متاثر ہوگی اور اس لیے اسے کیس میں مدعا علیہ بننے کی اجازت دی جائے۔

پٹیشن میں کہا کہ درخواست گزار کو سننے سے انکار کرنا عدالتی ضمیر کے لیے جابرانہ ہوگا اور یہ دائمی ناانصافی کا سبب بنے گا جسے ایک منصفانہ عدالتی نظام برداشت نہیں کرے گا۔

حمزہ شہباز کی فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست

دوسری جانب متنازع انتخاب کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ پنجاب بننے والے حمزہ شہباز نے سپریم کورٹ میں فل کورٹ بنانے کی درخواست دائر کردی۔

حمزہ شہباز نے اپنی درخواست میں آرٹیکل 63 اے کی نظرثانی کی درخواستوں اور الیکشن کمیشن کے خلاف منحرف ارکان کی اپیلوں بھی پر بھی ایک ساتھ سماعت کی استدعا کی۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے منحرف ارکان کے الیکشن کمیشن کے منحرف اراکین سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیلیں زیر التوا ہیں۔

درخواست گزار کے مطابق الیکشن کمیشن نے منحرف ارکان کے خلاف عمران خان کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات کو تسلیم کیا، چوہدری شجاعت حسین کا اپنے ایم پی ایز کو لکھا گیا خط بھی آئین اور قانون کے مطابق درست ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں منحرف ارکان کی اپیلیں منظور ہوگئیں تو صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے گی، اپیلیں منظور ہوئیں تو 25 منحرف ارکان کے نکالے گئے ووٹ بھی گنتی میں شمار ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں