کم عمری شادی کیس: ملزم کی لڑکی سے ملاقات کی درخواست مسترد

16 ستمبر 2022
سرکاری وکلا نے استدلال کیا کہ قانون متاثرہ لڑکی کی ’ شناخت کے تحفظ’ کی خصوصی حفاظت کا تقاضہ کرتا ہے— تصویر: شٹر اسٹاک
سرکاری وکلا نے استدلال کیا کہ قانون متاثرہ لڑکی کی ’ شناخت کے تحفظ’ کی خصوصی حفاظت کا تقاضہ کرتا ہے— تصویر: شٹر اسٹاک

کراچی کی سیشن عدالت نے ملزم کی مبینہ بیوی سے ملاقات کی درخواست خارج کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر کراچی سے 15 سالہ لڑکی کو اغوا کرکے لاہور میں اس کے ساتھ شادی کرنے والے ظہیر احمد نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اسے لڑکی سے ملنے کی اجازت دی جائے۔

اس سے قبل عدالت نے لڑکی کی پنجاب سے بازیابی کے بعد اسے شیلٹر ہوم بھیج دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرا کے والد کی تفتیشی افسر تبدیل کرنے کی درخواست مسترد

صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد سے متعلق کیسز کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت (ایسٹ) کے جج الیاس نے یہ حکم درخواست گزار کی جانب سے دائر درخواست پر جاری کیا جب کہ اس کے خلاف اغوا، اسمگلنگ اور چائلڈ میرج کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔

ایڈووکیٹ عامر رضا نے کہا کہ درخواست گزار لڑکی کا شوہر ہے، انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں لڑکی کو آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس کے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتی ہے۔

انہوں نے اپنے دلائل کے دوران حوالہ دیتے دیتے ہوئے کہا کہ لڑکی نے خود اپنے شوہر سے ملنے کا حلف نامہ دیا تھا، اس لیے قانون کے مطابق جوڑے کی ملاقات پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

وکیل کے مطابق ملزم ظہیر احمد اور لڑکی کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔

مزید پڑھیں: دعا زہرہ کے والد کی ہائی کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست خارج

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ شیلٹر ہوم میں ظہیر احمد کو لڑکی سے ملاقات کرنے کی اجازت دی جائے۔

اس کے برعکس، سرکاری وکیل رانا خلیق مظہر اور ثمرین نے اعتراض کیا کہ درخواست گزار ملزم ظہیر احمد کی متاثرہ لڑکی سے ملاقات کی کوئی قابل قبول وجہ پیش کرنے میں ناکام رہا۔

سرکاری وکلا نے استدلال کیا کہ قانون لڑکی کی ’ شناخت کے تحفظ’ کی خصوصی حفاظت کا تقاضہ کرتا ہے، استغاثہ نے عدالت سے ظہیر احمد کی درخواست کو مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ شواہد سے چھیڑ چھاڑ کے سنگین خدشات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شادی کے لیے مثالی عمر کونسی ہے؟

جج نے ریمارکس دیے کہ متاثرہ لڑکی اس وقت شیلٹر ہوم میں رہائش پذیر ہے اور بہت زیادہ عوام کی نظر میں آنے سے بچانے کے لیے کسی کو بھی اس سے ملنے کی اجازت نہیں ہے ۔

جج نے فیصلہ قرار دیا کہ اس طرح کے کیسز میں یہ طے شدہ قانون ہے کہ متاثرہ شخص کا ملزم سے براہ راست آمنا سامنا نہ ہو اور ایسے مقدمات میں خصوصی حفاظتی انتظامات کیے جائیں۔

انہوں نے فیصلہ دیا کہ مذکورہ بالا دلائل اور پریوینشن پرسن اسمگلنگ ایکٹ 2018، اس کے رولز 2020، اینٹی ریپ ایکٹ 2021 اور رولز میں وضع کردہ قانون کی متعلقہ دفعات کے پیش نظر درخواست مسترد کی جاتی ہے۔

متاثرہ لڑکی کی گواہی کی درخواست بھی خارج

دوسری جانب، اسی عدالت نے ظہیر احمد کی ایک درخواست کو بھی خارج کر دیا جس میں تفتیشی افسر کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنی مبینہ بیوی کا بیان ریکارڈ کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں