سائنسدانوں نے کہا ہے کہ تباہ کن مون سون بارشیں، جس کے سبب ایک تہائی سے زیادہ پاکستان زیرآب ہے، ایسا 100 برسوں میں ایک بار ہوتا ہے اور ممکنہ طور پر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدت میں اضافہ ہوا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن (ڈبلیو ایم اے) ایسا ادارہ ہے جو عالمی سطح پر تحقیق کرتا ہے کہ شدید ایونٹس میں موسمیاتی تبدیلی کا کتنا کردار تھا، اس کی رپورٹ کے مطابق بری طرح متاثر صوبے سندھ اور بلوچستان جہاں اگست میں معمول سے 7 سے 8 گنا زیادہ بارشیں ہوئیں۔

دریائے سندھ کے پورے طاس میں سائنسدانوں کو پتا چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دو مہینے کے مون سون سیزن میں 50 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔

انہوں نے تجزیے میں کمپیوٹر پر 31 ماڈل استعمال کیے، جس میں حقیقی دنیا کے مشاہدات شامل کیے گئے۔

ڈبلیو ایم اے نے پہلے ملک ‘ہیٹ ویو’ پر تجزیہ کیا تھا جس نے بھارت اور پاکستان کو مارچ اور اپریل کے مہینے میں جلا کر رکھ دیا تھا جہاں پارہ 50 ڈگری تک پہنچ گیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی سے گرمی کی لہر کا امکان 30 گنا زیادہ بڑھا دیا ہے۔

ڈبلیو ایم اے کے شریک رہنما اور امپیریل کالج لندن کے سائنسدان برائے موسمیات فریڈرک اوٹو نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ‘ہیٹ ویو’ کا امکان شدید بارشوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

سائنسدان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سیلاب میں موسمیاتی تبدیلی کا کردار دیکھنا پیچیدہ ترین کام ہے کیونکہ اس سال کی شدت کی متعدد دیگر وجوہات بھی ہیں۔

خیال رہے کہ سیلاب کی وجہ سے 1500 سے زائد افراد جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوگئے جبکہ سڑکیں، گھر اور فصلیں تباہ ہوگئیں، مجموعی نقصان کا اندازہ 30 ارب ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ سیلابی پانی اترنے میں 6 ماہ تک لگ سکتے ہیں، جس کی وجہ سے پانی سے جنم لینے والی بیماریاں جیسے ڈینگی اور ہیضہ پھیلنے کے خطرات ہیں۔

سائنس دانوں نے زور دیا کہ سیلابی گزرگاہوں کے راستے میں گھروں اور زرعی زمین، ناکافی انفراسٹرکچر جیسا کہ ڈیموں کے نہ ہونے سے شدید بارشوں کے اثرات زیادہ گھمبیر ہوگئے ہیں۔

یونیورسٹی آف کمیبرج کی جغرافیہ دان عائشہ صدیقی نے بتایا کہ دریائے سندھ کے نچلے حصے میں نکاسی کے مسائل غیر سیلابی برسوں میں بھی نمایاں ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں