’پاکستان کو ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ دار ممالک سے بھیک مانگنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے‘

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2022
شہباز شریف نے کہا کہ گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ممالک کا یہ فرض ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں — فائل فوٹو: اے ایف پی
شہباز شریف نے کہا کہ گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ممالک کا یہ فرض ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں — فائل فوٹو: اے ایف پی

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایسے وقت میں ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ دار ممالک سے امداد کی بھیک مانگنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے جب تباہ کن سیلاب ملک کے تقریباً ایک تہائی حصے کو متاثر کر چکا ہے۔

تازہ ترین اعداد و شمار اور تخمینوں کے مطابق مون سون بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب اب تک تقریباً 1700 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ آبادی میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بڑھنے کے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

سیلاب کے سبب ملک کو پہنچنے والے نقصان کا ابتدائی تخمینہ 30 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، حکومت اور اقوام متحدہ نے اس بدترین تباہی کا ذمہ دار موسمیاتی تبدیلی کو ٹھہرایا ہے۔

برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ انہیں عالمی برادری سے ماحولیاتی انصاف کی امید ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب زدہ علاقوں میں غذائی عدم تحفظ میں اضافے کا خدشہ

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ تباہ کن مون سون بارشوں کے بعد پاکستان کو صحت، غذائی تحفظ اور سیلاب متاثرین کے بے گھر ہونے کے سبب ایک غیر معمولی بحران کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ممالک کا یہ فرض ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں جس کا ان گیسوں کے اخراج میں انتہائی معمولی کردار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی زندگی میں اپنے عوام کو اس قسم کی تباہی، سیلاب اور مصائب کا شکار کبھی نہیں دیکھا، لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور اپنے ہی ملک میں ’موسمیاتی پناہ گزین‘ بن گئے ہیں۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ عالمی برادری نے فنڈز اور امداد کا وعدہ کیا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے، اس موسمیاتی تباہی کا دائرہ ہمارے مالی وسائل کی قوت سے باہر ہے، ہماری ضروریات اور دستیاب وسائل کے درمیان فاصلہ بہت وسیع ہے اور یہ دن بدن وسیع تر ہوتا جارہا ہے‘۔

مزید پڑھیں: سیلاب متاثرین کیلئے آج پاکستان اور اقوام متحدہ کی نظرثانی شدہ ہنگامی اپیل کا آغاز

انہوں نے وضاحت کی کہ ’ہم کسی پر الزام نہیں لگا رہے، ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارا کیا دھرا نہیں ہے لیکن ہم اس کے شکار ہوگئے ہیں، کیا مجھے مدد کی اپیل بھیک کے پیالے میں ڈال کر کرنی پڑے گی؟ یہ غیر منصفانہ ہے‘۔

عالمی رہنماؤں کی جانب سے تعاون پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم ان کے دل چُھو لینے والے الفاظ اور بیانات کے لیے شکر گزار ہیں، یہ سب خوش آئند ہے لیکن اس سے زیادہ اہم ان بیانات کا عملی مظاہرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور ہم اس کی تعریف کرتے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے، انہیں ہمارے تحفظ، بحالی اور اپنے قدموں پر واپس کھڑا کرنے کے لیے بہت بہتر اور بہت بڑے منصوبے کے ساتھ آگے آنا چاہیے‘۔

انہوں نے ایک دہائی قبل امیر ممالک کی جانب سے آب و ہوا کے بحران سے سب سے زیادہ متاثرہ ترقی پذیر ممالک کے لیے بطور موسمیاتی فنڈ سالانہ 100 ارب ڈالر دینے کے وعدے کی جانب بھی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ’وہ پیسہ کہاں ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان ممالک سے سوال کریں اور یاد دلائیں کہ وہ اپنے ان وعدوں کو پورا کریں‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں صحت عامہ کی صورتحال تباہی کے دہانے پر ہے، عالمی ادارہ صحت

شہباز شریف نے واضح کیا کہ ‘ہم معاوضے کے بارے میں سوال نہیں کر رہے، میں اس وقت معاوضے کی بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا، میں جو کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے اور یہ نقصان نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ناقابل تلافی ہوجائے، ان ممالک کو اس صورت حال کا فوری نوٹس لینا چاہیے، ذمہ داری لینی چاہیے اور فوری اقدام اٹھانا چاہیے‘۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے ابتدائی طور پر 16 کروڑ ڈالر امداد کی اپیل کی تھی تاہم بڑھتی ہوئی آبی بیماریوں اور تباہی کے اثرات کے پیش نظر رواں ہفتے عالمی ادارے نے امداد میں 5 گنا اضافہ کرتے ہوئے 81 کروڑ 60 لاکھ ڈالر امداد کی اپیل کی ہے۔

اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل عالمی ادارہ صحت ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم گیبریئس نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں صحت عامہ کی صورتحال تباہی کے دہانے پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پانی کی سطح بلند ہونے کا سلسلہ رک گیا ہے لیکن خطرہ کم نہیں ہوا، صحت عامہ کی صورتحال تباہی کے دہانے پر ہے، اگر ہم پاکستان کے لیے زیادہ سے زیادہ امداد کا انتظام نہیں کرتے ہیں تو سیلاب کے سبب جاں بحق ہونے والوں سے کہیں زیادہ جانیں آنے والے ہفتوں میں ضائع ہو سکتی ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں