یوکرین میں ریپ کے واقعات روس کی ’فوجی حکمت عملی‘ ہے، اقوام متحدہ

اپ ڈیٹ 15 اکتوبر 2022
پرامیلا پٹرن نے کہا 24 فروری کو روس کے یوکرین پر غیرقانونی قبضہ کے صرف 3 دن بعد ریپ کا پہلا کیس رپورٹ ہوا—فائل فوٹو: اے ایف پی
پرامیلا پٹرن نے کہا 24 فروری کو روس کے یوکرین پر غیرقانونی قبضہ کے صرف 3 دن بعد ریپ کا پہلا کیس رپورٹ ہوا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ کی سفیر پرامیلا پٹرن نے ایک انٹرویو میں یوکرین میں روسی فوجیوں پر خواتین کے ریپ اور جنسی تشدد کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین میں ریپ اور جنسی تشدد کے واقعات روس کی جانب سے ’فوجی حکمت عملی‘ اور متاثرین کو غیر انسانی بنانے کی ’تدبیر‘ ہے۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے سفیر نے ریپ کو جنگی ہتھکنڈوں کے طور پر استعمال کرنے پر کہا کہ اس بات کی تمام علامات موجود ہیں، خواتین کئی دنوں تک ریپ کا شکار ہوتی رہیں اور کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا، جب خواتین کو ویاگرا کی دوا سے لیس روسی فوجیوں کے بارے میں گواہی دینے کے بارے سنتے ہیں تو یہ سب واضح طور پر روس کی جانب سے ’فوجی حکمت‘ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین کے 40 مقامات پر روس کے میزائل حملے، نیٹو کا یورپی فضائی نظام کا منصوبہ

انہوں نے کہا کہ ’جب متاثرین اپنے اوپر ہونے والے واقعات کے حوالے سے رپورٹ میں بتاتے ہیں کہ ریپ کے دوران انہیں جو کچھ کہا گیا وہ واضح طور پر متاثرینسے غیر انسانی رویہ اپنانے کا حربہ ہے۔

اقوام متحدہ کی سفیر پرامیلا پٹرن نے کہا کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک اقوام متحدہ نے جنسی تشدد کے سینکڑوں کیسز کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے ستمبر میں جاری رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 24 فروری کو روس کے یوکرین پر غیرقانونی قبضے کے صرف تین دن بعد پہلا کیس رپورٹ ہوا تھا

پرامیلا پٹرن کا کہنا تھا کہ روسی افواج کی جانب سے انسانیت سوز جرائم کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ کچھ رپورٹس کے مطابق جنسی تشدد کا شکار ہونے والوں کی عمر 4 سال سے 82 سال کے درمیان ہے ، متاثرین میں خواتین اور نو عمر لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے البتہ ان میں مرد حضرات اور نو عمر لڑکے بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ میں روس کے خلاف قرارداد پر ووٹنگ، پاکستان نے حصہ نہیں لیا

انہوں نے مزید کہا کہ ’بچوں کے خلاف جنسی تشدد، ریپ اور اغوا کے کیسز بہت زیادہ ہیں لیکن ان میں سے صرف کچھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں

اقوام متحدہ کی سفیرکا کہنا تھا کہ روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ جنگ بندی کے دوران قابل اعتماد اعدادوشمار حاصل کرنا مشکل عمل ہے، یہ تعداد حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی کیونکہ جنسی تشدد ایک خاموش جرم ہے جس کی وجہ سے کئی افراد ڈر اور خوف سے رپورٹ کرنے میں گھبراتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں رواں سال مئی میں یوکرین اسی لیے گئی تھی تاکہ متاثرین درد ناک واقعات کے حوالے سے رپورٹ کرسکیں اور میں متاثرین کو بتا سکوں کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سفیر پرامیلا پٹرن نے کہا کہ ’ یوکرین میں جانے کا مقصد ریپ کرنے والے ملزمان کو بتانا تھا کہ دنیا ان کے عمل کو دیکھ رہی ہے، خواتین اور بچیوں اور لڑکوں کا ریپ کرکے تم لوگ سزا سے نہیں بچ سکتے’۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین تنازع: روس کو ترک صدر کی جانب سے ثالثی کی امید

بوسنیا سے ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو تک دنیا بھر میں ریپ کو جنگی ہتھکنڈوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن یوکرین میں جنگ کے دوران بین الاقوامی ترجیحات اور رویوں میں تبدیلی ایک اہم موڑ ثابت ہوئی ہے، آج اس بات پر سب متفق ہیں کہ ریپ کو جنگی ہتھکنڈوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یورپ میں آج جو کچھ ہورہا ہے، شاید یہ ریپ واقعات کی ایک وجہ ہو، انہوں نے کہا کہ میں امید کرتی ہوں کہ دنیا میں دیگر تنازعات کی وجہ سے یوکرین سے عالمی برادری کی توجہ نہیں ہٹے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں لوگ اسمگلنگ میں ملوث ہیں جو ایک بہت بڑا بحران ہے، یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی کے بعد 70 لاکھ سے زائد یوکرین شہری ملک سے یورپی ممالک میں فرار ہوگئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں